نئی نسل ایجنڈوں کو بڑے اچھے سے سمجھتی ہے۔ فائل فوٹو
سڑکیں بند، نیٹ ورک جام، اسلام آباد کو کنٹینرز سے ڈھک دیا گیا۔ یوں جیسے مکھی سے بچانے کے لیے شہد کو ڈھانپا جاتا ہے۔ لمبی قطاروں میں لگی شہریوں کی گاڑیاں اس غیر یقینی صورتحال سے دوچار رہیں کہ احتجاجی آئیں گے تو کیا ہوگا؟ اور پھر جب وہ آئے جنہیں روکنے کو کنٹینر لگا رکھے تھے، انہیں راستہ دیا گیا اور وہ پشاور موڑ پہنچ کر بیٹھ گئے، یہ احتجاج بہت زبردست رہا۔ اسلام آباد کے پر لطف موسم میں کہیں والی بال تو کہیں فٹ بال، کھیل بھی چلتے رہے، احتجاج ہوتا رہا۔ مولانا فضل الرحمان آئے، احتجاج کیا اور چلے گئے۔
اس سے پہلے چشم فلک نے اب کے وزیراعظم تب کے احتجاجی عمران خان کا کنٹینر بھی ڈی چوک میں دیکھا، تب بھی کنٹینر 126 دن عوام کا منہ چڑاتے رہے، پھر 2016 میں بھی بات تو تو میں میں سے کنٹینر پر جانے لگی تھی کہ اسلام آباد لاک ڈاؤن رک گیا۔
احتجاج میں پارلیمنٹ کے سامنے صحافیوں نے پکوڑے تلے، کسانوں نے آلو پیاز لگا دیا۔ ڈی چوک سے قریب ہی دو مرتبہ ایلیمنٹری سکول ٹیچرز کا احتجاج بھی دیکھا، اپنی تمہید کے بعد اس احتجاج کو یاد کرتے ہی میں موضوع سے ہٹ گیا۔ آخری بات پہلے کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ ان اساتذہ کا احتجاج مجھے ’سب سے اصلی لگا‘، بارش ہوئی تو ان کے پاس بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، یہ وہیں کسی درخت اور کسی عمارت کے سائے میں پناہ لیے رہے، خواتین، مرد اور بچے بھی اس احتجاج میں شامل تھے، لیکن انہیں کوئی کنٹینر ملا، نہ کسی نے کھانا پہنچایا، نہ کسی نے ہزار ہزار روپیا بانٹ کر اپنائیت کا احساس دلایا۔
خیر! احتجاج جمہوری حق ہے، استعمال تو کرنا چاہیے، بولنا چاہیے، اپنا حق مانگنا چاہیے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک خاتون لاہور کے کسی میدان میں بغیر کنٹینر اور مائیک گانے سے زیادہ رجزیہ انداز میں ’سرفروشی کی تمنا‘ گا رہی تھیں۔ دیگر طالبعلم ان کے ساتھ گا رہے تھے، ساز بج رہا تھا، پورے ملک میں آواز گونجی تو معلوم چلا کہ یہ احتجاج تھا، لیکن وہ شاید بتا رہے تھے کہ احتجاج کا یہ بھی کوئی ڈھنگ ہو گا، آپ کو نظریات سے اختلاف سہی، لیکن اس سے تو انکار نہیں کہ یہی فرق ہے اصلی اور نقلی ڈگری میں، کلام چنا گیا، پڑھا گیا، یہ کلام ان کے باغیانہ نظریات نہیں، جوان خون کی باغیانہ روش کا عکاس ہے جو صرف اپنی جامعات میں سٹوڈنٹ یونین مانگ رہے ہیں تاکہ طالبعلموں کا استحصال نہ ہو، وہ کسی کو گالی نہیں دے رہے، نہ کسی کی نقل اتار رہے ہیں، پڑھے لکھے ہیں، عمدہ کلام کا انتخاب کرکے تھپڑ کسی پولیس اہلکار کے بجائے اپنے ہی دوسرے ہاتھ پر مار کر خون نہیں بہا رہے، آواز پیدا کر رہے ہیں، جس کی گونج آج مجھے لکھنے پر مجبور کررہی ہے۔
احتجاج کے لیے سڑکیں بند کرنا ضروری نہیں۔ لیکن میں زیادہ تو نہیں جانتا، شہروں سے طالبعلم انتیس نومبر کو اپنے حقوق کے لیے نکلیں گے، اور مجھے پورا یقین ہے کہ آزاد ملک کے ان آزاد لونڈے لپاڑوں کی پھٹی جینز اور ان کے گٹار کے مارچ میں ریلو کٹے ہوں گے نہ کنٹینر، قیمے والے نان بٹیں گے۔
تھرکتے پاؤں اور بڑھتی تالیوں کا احتجاج شاید منفرد تو ہو، لیکن یہ اس احتجاج سے بہت بہتر ہے جہاں قیادت کے ایجنڈے پر آئے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ آئے کیوں ہیں؟ سٹوڈنٹ یونینز طلبا کا حق ہے، جہاں وہ اپنے مسائل پر بات کرسکیں، اور مستقبل میں سیاست میں بھی بہترین تربیت اور نئی سوچ کے ساتھ آئیں، پیسہ بنانے اور سٹیٹس دکھانے نہیں، ملک کی ترقی کے لیے آئیں، کیونکہ بات تو سچ ہے، فیکٹریوں کے دھویں سے یا باتوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو اب تک آچکی ہوتی۔ ترقی سوچ کی تبدیلی سے شروع ہو گی، اور فیکٹریوں کے دھوئیں کو روکنے متبادل توانائی پر جانے اور سمندری حیات کی حفاظت بھی سوچ کی ترقی کا نام ہے، جو اس کے ثمرات میں آئے گی، نعروں اور ترانوں سے تبدیلی نہیں آئے گی، سوچ وسیع کرنی ہو گی۔
تالیوں پر لبرلزم کا فتویٰ سراسر زیادتی ہے۔ سرخ کا مطلب انقلاب ہے، لبرلزم نہیں۔ اور اب بھی رہے گا، پچھلے اتنے عرصے سے سیاستدانوں کی قلا بازیوں کے بعد یہ نوجوانوں کے لیے خوشگوار حیرت کا جھونکا ہے، اور یقین جانیں نئی نسل ایجنڈوں کو بڑے اچھے سے سمجھتی ہے۔ کم از کم اسے معلوم ہے وہ کیا کر رہی ہے اور اسے کیا کرنا ہے۔ تھرکتے پاؤں اور تالیوں کا شور کم از کم نوجوانوں کو یکجا تو کیے ہوئے ہے، ایجنڈا ہی سہی ایک تو ہیں۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں