Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا جدہ میں کوئی تاریخی کلیسا ہے؟

جدہ کے البغدادیہ محلے میں واقع تاریخی عمارت کی حقیقت کیا ہے؟ ( فوٹو: الریاض)
جدہ کے البغدادیہ محلے میں واقع تاریخی عمارت کی حقیقت کیا ہے؟
کیا یہ واقعی کوئی تاریخی کلیسا ہے جیسا کہ بعض لوگوں کی طرف سے دعوے کئے جارہے ہیں یا یہ امیر البحر کا گھر ہے جیسے دوسرے فریق کا کہنا ہے یا پھر یہ فصیل بند شہر سے باہر منفرد طرز سے تعمیر ہونے والا عام سا مکان ہے؟
جدہ کے پرانے باسی البغدادیہ محلہ سے خوب واقف ہیں۔ یہی وہ محلہ ہے جو فصیل بند شہر سے باہر سب سے پہلے تعمیر ہوا تھا۔ اسی محلے سے متصل اماں حوا کا تاریخی قبرستان ہے جن سے خود یہ شہر منسوب ہے۔

البغدادیہ محلے میں جوہرہ بلڈنگ بڑی مشہور رہی ہے۔ یہاں اسپورٹس کی مارکیٹ ہے۔ اسی سے متصل فندق ازہر ہے جس کے بالکل پیچھے ایک خالی سا میدان ہے اور اس کے عین وسط میں سبز کھڑکیوں والا دو منزلہ تاریخی مکان ہے جس کی طرف عام طور پر لوگوں کی نظریں نہیں جاتیں۔
یہ مکان دو سال پہلے تک کھنڈر تھا۔ چند بوسیدہ دیواریں تھیں جن کے کئی حصے ٹوٹ چکے تھے مگر اس کی خصوصیت یہ تھی کہ جدہ کے مکانات کی طرز تعمیر سے یہ مکان بالکل منفرد تھا۔ جدہ کے پرانے مکانات کی طرز تعمیر کو سامنے رکھیں اور اس مکان کو دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ شاید کسی اور ملک سے یہ مکان اٹھا کر یہاں لاکے رکھ دیا گیا ہو۔
اس مکان کی انفرادیت یہ تھی کہ اس کے صحن کی دیوار پرقوس بنا ہوا تھا۔ درو دیواریں بالکل مختلف تھیں بلکہ کھڑکھیاں بھی جدہ کے عام مکانات کی کھڑکیوں سے منفرد تھیں۔
اس تاریخی مکان کی طرف لوگوں کی توجہ اس وقت مرکوز ہوگئی جب جدہ میونسپلٹی نے دو سال قبل اس کی ترمیم کا فیصلہ کیا۔
جب اس مکان کی تاریخ کا سراغ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ بہت سے لوگوں کا دعوی ہے کہ یہ عمارت جدہ کا تاریخی کلیسا ہے جو قدیم زمانے میں یہاں لنگرانداز ہونے والے برطانوی بیڑوں میں کام کرنے والوں کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

دعوی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اسے ترک حکومت کے زمانے میں یہاں تعمیر کیا گیا تھا۔ صحن کی دیوار کے اوپر بنے قوس کے بارے میں ان کا دعوی تھا کہ یہ کلیسا کا گھنٹہ ہے۔
اسی دوران ایک دوسرا گروہ میدان میں کود پڑا جس نے دعوی کیا کہ یہ مکان کلیسا نہیں بلکہ امیر البحر کا گھر ہے۔ ترک حکومت کے زمانے میں جدہ کی بندر گاہ میں لنگر انداز ہونے والے جہازوں سے ٹیکس وصول کرنے والے کو امیر البحر کہا جاتا تھا۔
تاریخی عمارت کے متعلق ایک تیسرا گروہ بھی ہے جس کا دعوی ہے کہ یہ مکان سمندر میں سفر کرنے والے جہازوں کی رہنمائی کے لیے لائٹ ہاؤس سے زیادہ کچھ نہیں۔

جب عمارت کے متعلق کافی لے دے ہوئی تو جدہ کی تاریخ سے واقف ماہرین نے بحث کو دلائل سے ختم کرتے ہوئے اس کی حقیقت واضح کردی۔
الشرق الاوسط کے کالم نگار اور معروف ادیب و صحافی محمد صادق دیاب، حجاز کی تاریخ کے مورخ قاسم ہاشم اور جدہ کے مورخ محمد درویش کا کہنا ہے کہ جدہ کی فصیل 1947 میں ٹوٹ گئی تھی جبکہ یہ مکان اس سے پہلے تعمیر ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا ہے کہ یہ مکان شیخ محمد علی عبدہ الجہنی نے تعمیر کیا تھا۔ وہ اس زمانے میں جدہ میں پانی کے وزیر سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے شہر کے شور وغل سے دور پر سکون جگہ میں جدہ کے مکانات کی طرز تعمیر سے بالکل مختلف اپنا یہ مکان بنوایا تھا۔

مورخین بتاتے ہیں کہ شیخ محمد علی نے بترجی خاندان کی ایک خاتون سے شادی کی مگر ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ ایک عرصے تک اس مکان میں رہے۔ علم و ادب اور فنون لطیفہ کے شوقین تھے، اس لیے ان گھر میں اہل فن وادب کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔
تاریخی مکان میں کئی علمی شامیں گزارنے والے کچھ بزرگ چند سال پہلے تک زندہ تھے جنہوں نے اس مکان کو آباد دیکھا تھا۔
 پھر شیخ محمد علی نے یہ مکان جدہ میں مقیم مارکیز نامی اٹلی کے ایک باشندے کو کرایہ پر دے دیا۔ مارکیز ایک عرصے تک اس گھر میں رہے اور اس کی طرز تعمیر میں بھی بنیادی تبدیلیاں کیں۔

بعد ازاں شیخ محمد علی عبدہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور وارثوں نے بھی عمارت پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کھنڈر میں تبدیل ہوگئی۔
بعد ازاں جدہ میونسپلٹی نے 2016 میں اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس کی مرمت کرکے تاریخی عمارت کے طور پر اسے محفوظ کر لیا۔

شیئر: