Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا وائرس کا خطرہ: ’چینی طلبہ پاکستان واپس نہ آئیں‘

چین میں کورونا وائرس پھیلنے کے باعث اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نے نیا داخلہ لینے والے اور چھٹیوں پر گئے ہوئے چینی طلبہ کو فوری طور پر پاکستان آنے سے روک دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں مقیم چینی باشندوں نے چین واپس جانے سے انکار کر دیا ہے۔ چینی باشندوں کا کہنا ہے کہ ’چین جا کر واپس پاکستان میں کوئی وائرس لانے کا سبب نہیں بننا چاہتے۔‘
یونیورسٹی کی انتظامیہ نے سٹوڈنٹس کونسل کے ذریعے چینی طلبہ کو آگاہ کیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے خاتمے تک پاکستان آنے سے گریز کریں۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ترجمان ناصر فرید کے مطابق ’چینی طلبہ کو تعلیمی نقصان نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ان کا سمسٹر ملتوی کرتے ہوئے اگلے سمسٹر کے سمر میں کور کر لیا جائے گا۔‘
ترجمان کے مطابق ’حالیہ داخلے میں 120 چینی طلبہ نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔‘ یونیورسٹی میں موجود طالب علم چونکہ کافی عرصے سے چین واپس نہیں گئے، اس لیے ان کی سکریننگ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘
حکام کے مطابق ’ 500 کے قریب چینی طلبہ پہلے سے زیر تعلیم ہیں جن میں سے 200 چین میں چھٹیاں گزارنے کے لیے گئے ہوئے ہیں۔‘
اردو نیوز نے پاکستان میں مقیم مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے چینی باشندوں سے بھی رابطہ کیا۔ ان سے ان کے چین میں موجود خاندانوں کے بارے میں پائی جانے والی تشویش، موجودہ صورت حال میں چینی حکومت کے اقدامات اور ان کی پاکستان میں قیام یا چین واپس جانے کی خواہش کے بارے میں سوالات کیے۔
تمام چینی باشندوں نے پاکستان میں قیام کو ترجیح دی ہے۔
چینی طالب علم تن چی اے نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’میرا تعلق جنوبی چین سے ہے۔ وہاں پر میرا خاندان محفوظ ہے اور کوئی بھی فرد ابھی تک اس بیماری کا شکار نہیں ہوا۔‘

یونیورسٹی کے چینی طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال واپس نہیں جانا چاہتے (فوٹو: فیس بک)

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’میں فی الحال چین نہیں جانا چاہتا۔ گھر والوں نے بھی منع کیا ہے اور وہاں جا کر واپس آنا خطرے سے خالی بھی نہیں ہے۔‘
پاکستان میں اکنامک ڈیلی چائنہ کے لیے کام کرنے والے چین کے صحافی لیانگ ٹونگ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں اپنی فیملی کے ساتھ اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ ہم نے چین جانے کا فیصلہ کر رکھا تھا لیکن اس وائرس کے پھیلنے کے بعد اپنے ٹکٹ منسوخ کر دیے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ وہاں سے واپسی پر کوئی ایسا وائرس لے کر آئیں جو ہمارے پاکستانی دوستوں کے لیے خطرے کا باعث بنے۔ میں چین میں موجود پاکستانی دوستوں سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی سوچیں کہ وہ وائرس کے پھیلاؤ کا باعث نہ بنیں۔‘

گھر والوں نے بھی منع کیا ہے اور وہاں جا کر واپس آنا خطرے سے خالی بھی نہیں ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اسلام آباد میں مقیم چینی بزنس وومین ژو ژینگ نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’چینی شہری کی حیثیت سے ہمیں اپنی حکومت پر اعتماد ہے۔ ہمارے عوام حکومت کی جانب سے ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے لوگوں اور چین میں موجود غیر ملکیوں کی فکر ضرور ہے لیکن پراعتماد ہیں کہ جلد ہی اس مشکل وقت سے نکل آئیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میری فیملی میرے ساتھ ہے۔ کچھ رشتہ دار وہاں ہیں، ان سے رابطہ ہے۔ وہ بھی محفوظ ہیں لیکن اپنے گھر تک ہی محدود ہیں۔ میں نہیں سمجھتی کہ اس وقت پاکستان چھوڑ کر چین جانا مناسب ہوگا۔ یہ تو خود کو مشکل میں ڈالنے اور پھر واپس آکر اپنے پاکستانی ساتھیوں کے لیے خطرہ بننے والی بات ہے۔‘
ادھر پاکستانی حکام نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے  پیشِ نظر چین کے لیے تمام ڈائریکٹ پروازیں دو فروری تک منسوخ کر دی ہیں اور اس حوالے سے چین کی فضائی کمپنیوں کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ اعلیٰ مجاز اتھارٹی کے فیصلے کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان فلائٹ آپریشن کو دو فروری تک معطل کر دیا گیا ہے۔ اعلامیے میں بیان کیا گیا ہے کہ دو فروری کے بعد کے لائحہ عمل کا اعلان مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

چین کی ایئر لائنز سے ہر ہفتے ایک ہزار کے قریب مسافر چین کے لیے سفر کرتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہ اعلامیہ چینی فضائی کمپنیوں ایئر چائینہ اور سدرن چائنیز ائیر لائن کے عہدیداران کو ارسال کر دیا گیا ہے۔
کراچی میں ٹریول ایجنٹ منعاقب نے اردو نیوز کو بتایا کہ سول ایوی ایشن کی جانب سے لیٹر موصول ہونے کے بعد ابھی تک ایئر لائنز نے الگ سے انہیں کوئی احکامات جاری نہیں کیے تاہم انہیں بکنگ پورٹل پر پروازیں میسر نہیں ہیں جن کی وہ بکنگ کر سکیں۔
منعاقب نے بتایا کہ ایئر چائنہ اور سدرن چائنیز ائیر لائن کی چین کے لیے ہفتے میں پانچ سے چھ پروازیں ہوتی ہیں لہٰذا کراچی کے مسافر تو عموماً دیگر ممالک کی لنک فلائٹس لے کر ہی چائنہ جاتے ہیں اور ان کی بکنگ فی الحال جاری ہے۔
ٹریول ایجنٹ کے مطابق جن ڈائریکٹ فلائٹس کو معطل کیا گیا ہے، ان سے ہفتے میں ایک ہزار کے قریب مسافر چین کے لیے سفر کرتے ہیں، جبکہ زیادہ تعداد لنک فلائٹس سے جاتی ہے۔

شیئر: