پاکستان میں پنجابی فلموں کی ملکہ کہلانے والی ماضی کی مشہور اداکارہ انجمن نے اپنی طلاق کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے شوہر کے ساتھ معاملات بالکل نارمل ہیں۔ انجمن کہتی ہیں کہ ان کے دور میں فلمیں چھ چھ ماہ سینیما سے نہیں اترتی تھیں مگر اب دوسرے دن ہی سینیما کی سیٹیں خالی ہوتی ہیں۔
اردو نیوز کو اپنے انٹرویو میں فلمسٹار انجمن نے کہا کہ ’میری طلاق کی باتوں میں بالکل بھی صداقت نہیں ہے، میرے اور میرے شوہر کے درمیان چھوٹے موٹے اختلافات ہوئے تھے جو کہ ہر میاں بیوی میں ہوجایا کرتے ہیں لیکن دو دن بعد ہمارے معاملات ٹھیک ہو گئے تھے۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ ’میری اب جہاں شادی ہوئی ہے وہ لوگ زرا مذہبی خیالات کے ہیں وہ فلموں ڈراموں میں کام کرنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔ میرے شوہر وسیم نے کچھ فلمیں بھی بنائیں اور اداکاری بھی کی لیکن اپنی فیملی کے پریشر کی وجہ سے مزید کام کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔
میں نے اور وسیم نے جب شادی کا فیصلہ کیا تو انہوں نے مجھے سب سے پہلے یہی کہا کہ انجمن بیگم آپ شوبز میں کام نہیں کریں گی۔ ‘
اس سوال کے جواب کہ بچوں کا آپ کے دوسری شادی کے فیصلے پر کای رد عمل تھا، انجمن نے بتایا کہ ’میرے بچوں نے مجھے کہا کہ امی ہم اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں ہم چاہیں بھی تو اس طرح سے آپ کو وقت نہیں دے سکتے جس طرح سے آپ کو وقت چاہیے اس لیے آپ کی زندگی میں بھی ایسا کوئی ہونا چاہیے جو آپ کی تنہائیوں کا ساتھی ہو۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ انجم شاہین سے انجمن کیسے بنیں تو انہوں نے بتایا کہ ’فلمسٹار زیبا کی بیٹی کی شادی پر لڈیاں ڈال رہی تھی وہاں وحید مراد سمیت انڈسٹری کے بہت بڑے نام موجود تھے۔ شباب کیرانوی نے مجھے دیکھا تو محمد علی سے کہا کہ مجھے میری فلم ”وعدے کی زنجیر“کے لیے ہیروئین مل گئی ہے۔ یہ لمبے قد والی لڑکی کون ہے میں نے اس کو کاسٹ کرنا ہے۔
مجھے جب ذیبا بیگم نے بتایا تو میں بہت خوش ہوئی اور ہاں کر دی۔ میرے فلمی نام کے لیے مختلف ناموں کی پرچیاں ڈالی گئیں دو بار پرچیاں اٹھائیں گئیں دونوں بار انجمن ہی نکلا۔
شروع میں اردو فلموں کے لیے سائن کیا گیا چار فلمیں اردو کیں پھر پنجابی فلموں کی آفرز آنا ہونا شروع ہوگئیں۔‘
آج کل بننے والی فلموں کے معیار پر بات کرتے ہوئے انجمن نے کہا کہ ’آج کل ایکٹر ڈائریکٹر سب اچھا کام کررہے ہیں۔ ہمارا دور آرٹسٹ کا دور تھا،آج ڈائریکٹر کا دور ہے ہمارے دور میں آرٹسٹ پر فوکس کیا جاتا تھا آج تو بس کسی بھی آرٹسٹ کو لے کرفلم بنا لی جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک فلم انڈسٹری کے زوال کی وجہ ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ ہم اپنی انڈسٹری کے زوال کا سبب خود ہیں گروپ بندی نے فلم انڈسٹری کو تباہ کیا۔ اگر سلطان راہی کسی وجہ سے فلم سائن نہیں کرسکے یا ڈیٹس نہیں دیں تو ان سے بدلہ لینے کے لیے گروپ بنا لیا جاتا تھا۔
اس گروپ بندی اور بدلے میں وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ ہم اپنی فلم کے ساتھ کیا کر رہے ہیں وہ بس کسی کو بھی لیکر فلم بنا لیتے تھے یوں وہ فلم ناکامی سے دوچار ہوجاتی تھی۔‘
انجمن کا کہنا ہے کہ ’ہمارے دور میں جو فلمیں بنتی تھیں وہ چھ چھ ماہ سینما سے نہیں اترتی تھیں، لیکن کہ آج اتنی مہنگی فلم بھی بنتی ہے لیکن ایک دن لگتی ہے اگلے دن سینما کی سیٹیں خالی ہوتی ہیں۔‘
کم عمر ہیروز خاص طور پر فلم سٹارسعود کے ساتھ فلمیں کرنے پر لوگوں کی تنقید کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا تھا کہ میرے ساتھ ہیرو کون ہے مجھے اس سے دلچپسی تھی ہی نہیں میرا ہیرو میرا کام ہوتا تھا۔‘
’مجھ پر تنقید کی گئی کہ اتنی موٹی ہو کر بھی فلموں میں آتی ہے، میرا موٹاپا بھی میرا امتحان تھا۔ میں جن جن فلموں میں بہت موٹی تھی وہی سپر ہٹ رہیں۔ میرا ایک گانا تھا لونگ گواچا جو کہ دو فلموں میں تھا ایک فلم تھی اللہ رکھا اور دوسری تھی دلاری لونگ گواچا مسرت نذیر اور نورجہاں دونوں کی آوازوں میں تھا دونوں فلمیں جب لگیں تو سپر ہٹ ہوئیں۔
میں تو یہ کہتی ہوں کہ اتنے موٹاپے کیساتھ کوئی دوسرا اگر اپنے گانے ہٹ کر وا کے دکھائے تو میں کہوں بڑی بات ہے۔ ‘
انجمن نے بتایا کہ ’میری یہ خوش نصیبی ہے کہ میڈم نور جہان مجھ پر اپنے فلمائے ہوئے گیت بے حد پسند کرتی تھیں۔ وجاہت عطرے ایم اشرف و دیگر موسیقارمجھے اکثر بتایا کرتے تھے کہ جب بھی کوئی گانا ہم میڈم نورجہاں سے گوانے کے لیے جاتے تو وہ سب سے پہلا سوال یہ کیا کرتی تھیں کہ ’اے گانا کِدے تے پکچرائز ہو ریا اے؟‘
تو جب انہیں بتایا جاتا کہ انجمن پر یہ گانا فلمایا جا رہا ہے تو وہ بہت خوش ہوجایا کرتی تھیں۔
انہوں نے مجھے ایک بار دعا دی کہ ’جا انجمن آج توں بعد میری دعا اے جدوں میرا گانا تیرے تے ہووے لوگ مینوں پُل جان تینوں یاد رکھن۔‘ان کی یہ دعا سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے ان کا ہاتھ چوم لیا۔‘
انجمن نے مزید کہا کہ میں نے تیس سال فلم انڈسٹری میں کام کیا اس دوران میں نے اپنے سینئرز اور جونئیرز کی بہت عزت کی۔ جہاں تک جونئیرز کے ساتھ عزت اور کام کے حوالے سے ماحول کی بات ہے تو میری کوشش ہوتی تھی کہ میں سب کے ساتھ کام کروں اور کوئی ایسی بات نہ ہو کہ بدمزگی ہو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک فلم تھی ’چوہدرانی‘ اس میں میرے ساتھ صائمہ تھی وہ سیٹ پر مجھ سے اکھڑی اکھڑی رہتی تھیں, اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے ایک انٹرویو میں کہہ دیا تھا کہ اگر صائمہ اور سید نور نے شادی کر رکھی ہے تو انہیں چھپانے کی بجائے اوپن کرنا چاہیے، یہ بات سید نور اور صائمہ کو بہت چبھ گئی تھی اس لیے وہ میرے ساتھ بات نہیں کرتے تھے۔
انجمن نے بتایا کہ ہمارے ایک وفد نے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے ملاقات کی تو میں نے انہیں کہا کہ آپ لوگ پنجاب کے لوگوں کے دماغوں پر حکومت کرتے ہیں اور ہم لوگ پنجاب کے لوگوں کے دِلوں ہر حکومت کرتے ہیں تو گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ آرٹسٹ کو عزت دیں۔