پاکستانی حکام نے پاک ایران سرحد کی بندش کی وجہ سے تفتان میں پھنسے 300 سے زائد ایرانی تاجروں اور ڈرائیوروں کو وطن واپس بھیج دیا جبکہ ایرانی حدود میں پھنسے پاکستانی ڈرائیورز تاحال وطن واپسی کے منتظر ہیں۔
سرحد کی بندش کی وجہ سے ایرانی مصنوعات پر انحصار کرنے والے پاکستانی سرحدی علاقوں میں اشیا خوردنی اور ایندھن کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں 60 روپے فی لیٹر اور ایل پی جی گیس کی قیمت میں 80 روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے۔
ایران میں کورونا وائرس کی منتقلی کے خدشے کے پیش نظر پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد تین دن سے بند کر رکھی ہے۔ سرحد کی بندش کی وجہ سے 300 سے زائد ایرانی باشندے تین روز سے پھنسے ہوئے تھے جن میں 30 تاجر اور باقی ڈرائیورز تھے ۔ ایرانی ڈرائیورز اور تاجر ایران سے ایل پی جی گیس اور خوردنی اشیا سمیت تجارتی سامان لے کر پاکستان آئے تھے۔
مزید پڑھیں
-
’چین سے پاکستانیوں کو واپس لایا جائے‘Node ID: 458226
-
ایران: کورونا وائرس سے مزید دو افراد ہلاکNode ID: 460461
-
کورونا: بلوچستان میں پیشگی اقدامات کے لیے مدد طلبNode ID: 461166
ایرانی باشندوں نے وطن واپس جانے کی اجازت نہ ملنے پر تفتان میں سرحدی گیٹ کے قریب احتجاج کیا ۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ تین دن سے انہیں کھانے پینے کے لیے کوئی چیز میسر ہے نہ آرام کی جگہ۔ انہوں نے حکام سے ایران واپسی کا مطالبہ کیا۔
احتجاج کے بعد ایرانی تاجروں اور ڈرائیوروں کو مال بردار گاڑیوں سمیت ایران جانے کی اجازت دے دی گئی۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چاغی بادل خان دشتی نے ٹیلیفون پر بتایا کہ ’پاک ایران تفتان سرحد قریباً ساڑھے چار گھنٹے کے لیے صرف ایرانی ٹرانسپورٹرز اور ڈرائیورز کو واپس ایران بھیجنے کے لیے جزوی طور پر کھولی گئی۔
سرحد کی دوسری جانب تفتان کے قریب ایرانی حدود میں درجنوں پاکستانی ڈرائیورز پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ڈرائیور سجاد بلوچ نے بتایا کہ ’ہم یہاں تین چار روز سے پھنسے ہوئے ہیں، ہمیں اپنی حکومت اپنے ملک آنے نہیں دے رہی۔ ہم بھی پاکستانی ہیں مگر پاکستانی حکام ہمیں لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ ہم نے ایران کے اندر بالکل سفر نہیں کیا، صرف سرحد عبور کرکے دو سو میٹر دوری پر واقع ٹرمینل میں ٹرک خالی کئے۔ ہم روزانہ صبح آتے تھے اور ٹرک خالی کرکے شام کو واپس جاتے تھے مگر اب ہم تین چار دنوں سے یہاں بے یار و مددگار پڑے ہوئے ہیں۔‘

سجاد بلوچ نے ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں میڈیکل چیک اپ پر کوئی اعترض نہیں۔ ہمیں صرف اپنے ملک واپس آنے دیا جائے، وہاں پر ہمارا میڈیکل چیک اپ کیا جائے اور اس کے بعد ہی اپنے گھروں کو جانے دیا جائے۔‘
تہران سے آئے پاکستانی سفارت خانے کے ایک افسر نے ان پاکستانی ڈرائیورز سےملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ’پاکستانی حدود میں انتظامات مکمل کیے بغیر کسی کو واپس آنے نہیں دیا جائے گا اور ایسا کورونا وائرس کی منتقلی روکنے کی خاطر ضروری ہے۔‘
منگل کو وزیرداخلہ بلوچستان ضیا لانگو کی قیادت میں صوبائی اسمبلی کے ارکان، قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے سربراہ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، صوبائی سیکرٹری صحت اور دیگر متعلقہ حکام پر مشتمل صوبائی حکومت کی ٹیم نے تفتان کا دورہ کیا اور تفتان میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کیے گئے انتظامات کا جائزہ لیا۔

صوبائی وزیرداخلہ ضیا لانگو نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ’تفتان سرحد پر ایران سے آنے والے افراد کی سکریننگ کا عمل جاری ہے۔ تین مشتبہ افراد کے نمونے ٹیسٹ کے لیے بھیجے گئے تھے جن کے نتائج منفی آئے۔ ایران میں مزید چھ سے سات ہزار زائرین اور پاکستانی موجود ہیں جن کو وطن واپسی پر دو ہفتے تک تفتان میں ٹھہرانے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔‘
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر چاغی بادل خان دشتی کا کہنا ہے کہ ’ایران میں موجود زائرین نے یکم مارچ کے بعد پاکستان واپس آنا ہے۔ان کی واپسی کے بعد ہمارے لیے اصل چیلنجز پیدا ہوں گے کیونکہ زائرین ایران کے کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر قُم کا دورہ کر کے آئیں گے۔‘

ان کے مطابق ’ایران سے واپس آنے والے پاکستانیوں کی ایران میں بھی دو ہفتے کے لیے قرنطینہ یعنی طبی نگرانی کی شرط پوری کرنے کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ ایران سے واپس آنے کے بعد تھرمل گنز کی مدد سے ان کی سکریننگ کی جائے گی اور اس کے بعد انہیں سرحد کے قریب پاکستانی حدود میں قرنطینہ میں رکھا جائے گا۔‘
تفتان سے باہر سیندک کراس کے مقام پر ایک خالی چار دیواری میں 100 خیموں پر مشتمل ہسپتال قائم کیا جائےگا تاکہ مشتبہ مریضوں کا علاج کیا جا سکے۔ محکمہ صحت سے خیمہ ہسپتال کے لیے ڈاکٹرز اور طبی عملہ فراہم کرنے کی درخواست کر دی گئی ہے۔
سرحدی علاقوں میں اشیا خوردنی اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ
