Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’حقیقی وبا کورونا نہیں بلکہ خود غرضی‘

پاکستان سمیت متعدد ملکوں میں اشیائے ضروریہ کید ستیابی مسئلہ بن رہی ہے (فوٹو سوشل میڈٰیا)
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتوں نے سوشل ڈسٹنسنگ یعنی سماجی دوری یا خود ساختہ تنہائی کے لیے اقدامات کیے تو خدشات کے ستائے بہت سے افراد نے فوری ضرورت سے زائد خریداری شروع کر دی۔
معمول سے زیادہ خریداری کا دائرہ پھیلا تو تجارتی مراکز میں موجود اشیائے ضروریہ ناپید یا قلت کا شکار ہونے لگیں۔ اس صورت حال نے پہلے سے مشکلات کا شکار دیہاڑی دار طبقے کو متاثر کیا تو وہ لوگ بھی محفوظ نہیں رہے جنہوں نے ’بلک بائنگ‘ یا اضافی خریداری نہیں کی تھی۔
پاکستان اور بیرون ملک موجود پاکستانی اور غیر ملکی سوشل میڈیا صارفین نے اضافی خریداری کے اس عمل سے پیدا ہونے والے اثرات کو اپنی ٹائم لائنز کا حصہ بنایا تو کسی نے دوسروں سے یہ اطلاع شیئر کی کہ ان کے علاقے میں سٹورز پر سامان کی کیا صورت حال ہے۔
فائقہ سلمان نامی ٹوئٹر صارف نے اپنی ٹویٹ میں لاہور کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’آج میٹرو سٹور گئی، الحمد للہ ہر چیز وافر تھی۔ رش زیادہ تھا لیکن لوگ ایک ٹرالی سے زیادہ سامان نہیں لے رہے تھے۔‘
اپنی ضرورت کی چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ‘میری لسٹ میں سوائے ہینڈ سینٹیسائزر، پینٹ بٹر اور جیلپینوز کے سوا سب کچھ مل گیا‘۔

مہوش اعجاز نامی صارف نے معاشرتی تنہائی کے دوران پیداشدہ صورت حال کو اپنی ٹویٹ کا موضوع بنایا۔ انہوں نے لکھا کہ ‘کورونا وائرس کی عالمی وبا سے ہم میں سے بیشتر خوفزدہ ہیں۔ بہت سے خود کو الگ تھلگ کر چکے ہیں، لیکن کیا ہم میں سے کسی کے پاس امید بھی ہے۔‘

برطانیہ میں مقیم پاکستانی احمد شاہین نے ’پینک بائنگ‘ سے مقامی طور پر پیدا ہونے والی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں سٹور کے خالی شیلف نمایاں ہیں۔ ان مناظر کو ’حقیقی اور خوفناک‘ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کئی گھنٹے بعد کی گئی ایک اور ٹویٹ میں لکھا ’قریبی دکانوں میں تاحال سامان کی تلاش جاری ہے‘۔

امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی نے سٹانس گراؤنڈڈ نامی ہینڈل سے تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’دوبارہ جب آپ خوفزدہ ہو کر اضافی خریداری کریں تو اس تصویر کو ضرور یاد رکھیے گا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو خیال آتے ہی کار میں کود کر 18 مختلف سٹورز تک پہنچتے اور اپنی ضرورت بھری چیزیں نہیں لے سکتے۔‘

یوسف بدری نامی ٹوئٹر صارف نے سامان سے خالی شیلف کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ’شاید حقیقی عالمی وبا کورونا وائرس نہیں بلکہ خودغرضی، لالچ اور خوف ہے جو مشکل لمحات میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔‘

سوشل میڈیا صارفین ایک دوسرے کو گھروں میں رہنے اور اپنی حفاظت کی تلقین کرنے کے لیے ’سٹے سیف سٹے ہوم‘ کے ہیش ٹیگ کے تحت ٹویٹس کرتے رہے تو بہت سے ایسے بھی تھے جو مشکل وقت میں نادار افراد کی مدد کی تلقین کرتے رہے۔ عمر ارشد نامی صارف نے لکھا کورونا سے دیہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ پسا ہے۔ خدارا، جو دوست اپنے سفر کے دوران کوئی رنگساز، الیکٹریشن وغیرہ دیکھے اسے کچھ پیسے ضرور دے۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور پاکستان میں کورونا مریضوں میں اضافے اور اموات کی خبروں کے بعد جہاں بہت سے صارفین پریشانی کا شکار دکھائی دیے وہیں کچھ ایسے بھی تھے جو مثبت اطلاعات شیئر کرتے رہے۔ محمد ابراہیم قاضی نامی ٹوئٹر صارف نے کورونا سے مقابلے کے لیے کیے گئے کچھ اقدامات کے ذکر کو اپنی ٹویٹ کا موضوع بنایا۔

پاکستانی کرکٹر اظہر علی نے بھی سوشل میڈیا پر جاری کردہ اپنے خصوصی پیغام میں دیکھنے والوں سے اپیل کی کہ وہ بتائی جانے والی ہدایات کو نظر انداز نہ کریں بلکہ ان پر عمل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی ذمہ دار رویے کا مظاہرہ کریں۔
سرکاری سطح پر مہیا کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں جمعرات کی صبح تک کورونا سے دو اموات ہو چکی تھیں جب کہ مریضوں کی تعداد 300 سے زائد ہو چکی ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: