Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عجیب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی‘

کورونا سے دنیا بھر میں تقریبا دو لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں (فوٹو سوشل میڈیا)
کورونا وائرس کے پیش نظر سوشل ڈسٹنسنگ یا معاشرتی فاصلے قائم رکھنے کی تجویز کے بعد بہت سے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی شہری خوداختیار کی گئی تنہائی کو اپنا رہے ہیں۔
اپنے گھروں میں رہتے ہوئے پیشہ ورانہ فرائض ادا کرنے یا دیگر مصروفیات نمٹانے والے سوشل میڈیا صارفین ورک فرام ہوم اور سوشل ڈسٹنسنگ کے دوران کی مصروفیات دوسروں سے بھی شیئر کر رہے ہیں۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بڑھنے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر احتیاطی اقدامات کا اعلان کیا گیا تو سوشل میڈیا صارفین بھی اپنی مصروفیات شیئر کرنے سمیت دوسروں کو محتاط رہنے کی تلقین کرتے دکھائی دیے۔
لیلیٰ عباسی نامی ہینڈل نے کورونا کے دوران تجویز کردہ ایسے احتیاطی اقدامات پر عمل کی تلقین کی جو گھر کے اندر رہتے ہوئے اختیار کیے جانے چاہئیں۔ انہوں نے لکھا ’ہاتھ دھو نہ سکیں تو ہینڈ سینیٹائزر استعمال کریں، گھر پہنچنے پر اپنے کپڑے تبدیل کر لیں۔ الکوحل ملے ٹشو کی مدد سے اپنا موبائل فون صاف کریں۔ اپنے چہرے کو نہ چھوئیں، بچوں اور بزرگوں کا خیال رکھیں اور ذمہ دار ہونے کا مظاہرہ کریں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے روزمرہ زندگی کے معمولات متاثر ہوئے تو سوشل یوزرز اپنے جذبات کے اظہار کے لیے شاعری کو بھی استعمال کرتے رہے۔ ٹیلی ویژن میزبان فرح اقرار نے معاشرتی کیفیت کی عکاسی کے لیے ایک شعر کا سہارا لیا۔

بازاروں اور تجارتی مراکز کی بندش کی خبریں سامنے آئیں تو یہ اطلاعات بھی نمایاں ہوئیں کہ لوگ بڑی تعداد میں اشیائے ضروریہ خرید کر ذخیرہ کر رہے ہیں۔ عامر اقبالین نامی ہینڈل نے بے جا خریداری کی اس کیفیت کا اظہار کرنے کے لیے اپنی ٹویٹ میں ایک تصویر شیئر کی، ساتھ ہی لکھا ’آئیں ذمہ دارانہ عمل کا مظاہرہ کریں نہ کہ سیلفش بنیں۔‘

آدھی سے زیادہ دنیا کو متاثر کرنے والے کورونا وائرس کے دوران مشتبہ اور تصدیق شدہ مریضوں کو علاج و معالجہ کی خدمات فراہم کرنے والے طبی عملے کے تذکروں سے بھی پاکستانی ٹائم لائنز خالی نہیں رہیں۔ سوشل میڈیا صارفین طبی عملے کی کاوشوں کو سراہتے رہے۔

کورونا وائرس کے بعد میل جول کم کرنے والے صارفین اپنی متبادل مصروفیات کو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہے۔ کرم الٰہی گوندل نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ’اپنی بیٹی کی مدد سے کتابیں اکٹھی کی ہیں، یہ وقت ہے کہ سماجی تنہائی اختیار کر کے دوبارہ سے مطالعہ شروع کیا جائے۔‘

سوشل میڈیا پر کورونا کے حوالے سے افواہوں کا بازار گرم ہوا اور طرح طرح کی آرا سامنے آئیں تو متعدد افراد نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا۔ زمام علی خان لودھی نامی صارف نے لکھا ’ادویہ کے ماہر کے طور پر میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ پاکستانی کورونا کا نہیں بلکہ اپنی حرکتوں کا نشانہ بنیں گے۔ تمام جعلی واٹس ایپ علاج اور یونیسکو یا آغا خان ہسپتال کے نام سے شیئر کیے جانے والے جعلی پیغامات، سازشیں وغیرہ مجھے بیمار کر رہی ہیں۔

کورونا وائرس کے نتیجے میں اب تک دنیا بھر میں تقریباً دو لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جب کہ وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد آٹھ ہزار کا ہندسہ چھونے کو ہے۔ پاکستان میں بدھ کی صبح تک کورونا کیسز کی تعداد 200 سے زائد ہو چکی تھی۔
بدھ ہی کے روز یہ خبر بھی سامنے آئی کہ چین کے دورے سے واپس آنے والے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے احتیاط کے پیش نظر تنہائی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ قبل ازیں حکومت نے کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے کی مہم کا اعلان کیا تو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی ’آئی فائٹ کورونا‘ کے ہیش ٹیگ سے متعدد پیغامات جاری کیے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: