عاجل ویب سائٹ کے مطابق اس قریے کے دو بزرگوں نے 71 برس قبل پھیلنے والی وبا اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’عجیب منظر تھا-ہیضے کی وبا نے لوگوں میں خوف وہراس پیدا کردیا تھا- قرنطینہ جیسی پابندیاں تھیں- مریضوں کے لیے میڈیکل ٹیمیں بھیجی گئی تھیں‘-
اس دور کے عینی شاہد شیخ محمد بن جار اللہ نے ‘روتانا خلیجیہ چینل’ کے خصوصی پروگرام ‘یاھلا’ سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ’ ہیضے کی وبا تیزی سے پھیل گئی تھی- قریے کے بالائی اور زیریں تمام حصے اس کی زد میں آگئے تھے- وبا سے 70 سےزیادہ حواتین، بچے اور مرد مر گئے تھے‘-
شیخ محمد بن جار اللہ نے مزید بتایا کہ ’ہیضےکی وبا یمن ’ افغانستان’ پاکستان’ انڈیا اور مشرقی ایشیا کے ممالک سے حج پر آنے والوں سے پھیلی تھی‘-
شیخ محمد بن جار اللہ نے مزید بتایا کہ اس زمانے میں حکومت نے قریے میں پیدل دستے گشت پر تعینات کیے تھے- مکینوں کو گھر سے نکلنے سے روک دیا گیا تھا- دیگر قریوں کے باشندو ں کو ہمارے قریے میں آنے جانے سے روک دیا گیا تھا-
قریے کے باشندے گھروں میں بند ہوگئے تھے- حفاظتی تدابیر کی پابندی کررہے تھے- انتہائی ضرورت کے تحت ہی گھروں سے باہر آتے تھے-
قریے کے ایک اور بزرگ شیخ محمد بن ھیف آل سلیم نے بتایا کہ اس وقت سراۃ عبیدۃ کے کمشنر نے قریے کے باشندوں کے نام ایک خط بھیجا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کے یہاں جو مرض پھیلا ہوا ہے وہ متعدی ہے- قریے کے لوگ ملنا جلنا بند کریں- اپنے قریے سے نہ نکلیں-
آل سلیم نے بتایا کہ ہمارے قریے کی نگرانی کے لیے جوگشتی دستہ بھیجا گیا تھا وہ گورنریٹ کے اہلکاروں اور سپاہیوں پر مشتمل تھا-
’حفاظتی تدابیر کی بدولت وبائی مرض پر قابو پالیا گیا اور جلد ہمارے قریے میں زندگی معمول پر آگئی‘-