Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

1918 کا فلو:عرب دنیا میں تابوت کم پڑگئے

دنیا بھر میں لگ بھگ 500 ملین افراد اس میں مبتلا ہوئے(فوٹو عرب نیوز)
جزیرہ نما عرب اپنے اہم سٹریٹجک مقام کی وجہ سے متعدد وبائی امراض کا شکار رہا ہے جہاں دنیا بھر سے تاجر اور زائرین آتے ہیں۔
1918 میں ہسپانوی انفلوئنزا (فلو، زکام) اس وقت سامنے آیا جب دنیا پہلی جنگ عظیم کے اثرات سے نکل رہی تھی۔

جزیرہ نما عرب میں 1918 کو  ’بخار کا سال‘ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا (فوٹو: عرب نیوز)

تباہ کن وبائی امراض کے بارے میں تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں لگ بھگ 500 ملین افراد اس فلو کا شکار ہوئے۔
اس مہلک وبائی مرض کے باعث 50 سے 100 ملین کے درمیان افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جزیرہ نما عرب میں 1918 کو  ’بخار کے سال‘ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔

مرض کے باعث 50 سے 100 ملین کے درمیان افراد ہلاک ہوئے (فوٹو عرب نیوز)

جرمنی کے ایک عرب شہری گائڈو سٹین برگ نے شام اور جزیرہ نما عرب میں فلو کے اثرات اور اجتماعی یادداشت کے نام سے دو مضامین لکھے ہیں۔
قصبوں اور دیہاتوں کو ختم کرنے اور جزیرہ نما عرب میں آبادی کو حیرت انگیز طور پر کم کر دینے میں فلو کو کچھ مہینوں کا وقت لگا۔ اس عرصے میں اتنی اموات ہوئیں کہ یہاں تابوت کم پڑ گئے۔
لوگوں نے لاشوں کو تدفین کے لیے مسجد منتقل کرنے کے لیے تختے کے طور اپنے گھروں کے دروازے اور میتوں کے لیے کفن کی جگہ کمبلوں کا استعمال کیا۔

لوگوں نے قبریں کھودنے کے لیے رضاکارانہ کام کیا(فوٹو عرب نیوز)

ہسپانوی فلو سے متاثرہ افراد دو دن سے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتے تھے۔ بہت سے لوگوں نے مرنے والوں کو نہلانے، قبریں کھودنے اور دفن کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کیا کیونکہ قبریں کھودنے والے اتنا زیادہ کام نہیں کرسکتے تھے۔
کچھ لوگ نماز کے اوقات کے علاوہ سارا دن قبریں کھودتے تھے بس نماز کا دورانیہ ہی ان کا وقفہ سمجھا جاتا تھا۔
عبدالرحمٰن السویدہ نے اپنی کتاب ’حالیہ ماضی میں نجد‘ میں کہا کہ وبائی مرض کے خلاف جنگ بنیادی طور پر شہروں سے باہر گھروں اور مقامات یا شہر کی چاردیواری میں مریضوں کو الگ تھلگ رکھنے پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا ہو سکتا ہے کہ صحت مند افراد کو ہنگامی ویکسین لگائی گئی ہو۔ ’وہ شفا یاب مریضوں سے جراثیم لیتے اور باقی لوگوں کو قدیم طریقوں سے ٹیکہ لگاتے۔'
اس طرح اس بیماری کے پھیلاؤ کو محدود کیا گیا۔ جڑی بوٹیوں سے دواؤں کی تشکیل کچھ ایسے طریقے سے کی گئی تھی جو دادا دادی کے زمانے میں بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ وبائی مرض کے شکار فرد کی صحت کی بحالی میں 40 دن تک لگتے تھے اور صحتیابی کے آغاز کے ساتھ ہی خواتین شہر میں دستیاب تمام کھانے کے کچھ حصے اکٹھا کرتی تھیں اور اسے 'القیرو' نامی ایک برتن میں مزید پکاتی تھیں، مریض وہی کھاتا تھا۔ یہ پرہیزی کھانے کے طور پر خاص احتیاط کے ساتھ تیار کیا گیا ایک قسم کا شوربا تھا۔
السویدہ کے مطابق لوگوں کا ماننا تھا کہ اگر مریض القیرو میں پکایا کھانا نہیں کھاتا تو اسے مرض کی پیچیدگیوں کا دوبارہ سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ اس برتن میں اونٹ، بھیڑ اور بکرے کے گوشت کا ایک ملغوبہ تیار ہوتا تھا۔
پال ایل آرمرڈنگ کی کتاب ’ڈاکٹرز فار دی کنگڈم: دی ورک آف دی امریکن مشن ہاسپٹلز ان دی کنگڈم آف سعودی عرب‘ کے مطابق سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز کا اس وبا کے خلاف جنگ میں نمایاں کردار تھا جہاں انہوں نے ڈاکٹروں کو مثاثرہ افراد کے علاج کے لیے بلایا۔

متاثرہ لوگوں میں سے بیشتر مریض ٹھیک ہوگئے(فوٹو سوشل میڈیا)

آرمرڈنگ نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر پال ہیریسن کا ریاض کا دوسرا دعوت نامہ عجلت کے ساتھ پہنچا۔ 1919 کے موسم سرما میں انفلوئنزا کی وباء پوری دنیا میں پھیل گئی جس کے نتیجے میں بہت سی ہلاکتیں ہوئیں۔
جب ڈاکٹر ہیری سن دارالحکومت پہنچے تو شاہ عبد العزیز اپنے بڑے بیٹے ترکی اور ان کی اہلیہ جوہرہ بنت موساد سے محروم ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر ہیری سن نے بہت سارے متاثرہ لوگوں کا علاج کیا اور ان میں میں سے بیشتر ٹھیک ہوگئے۔

شیئر: