’ان کے ڈاکٹرز مشورہ دیں تو عمل، ہمارے کریں تو سیاست‘
جمعرات 23 اپریل 2020 9:51
ڈاکٹرز نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی مخالفت کرتے ہوئے نتائج سے خبردار کیا (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستانی معالجین کی جانب سے حکومت کو لاک ڈاؤن یقینی بنانے اور طبی مراکز میں مزید گنجائش نہ ہونے پر متنبہ کیا گیا تو سوشل میڈیا صارفین نے اس معاملے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔
متعدد ڈاکٹرز کا ایک خط سامنے آنے کے بعد گذشتہ روز کراچی میں ڈاکٹروں کی مختلف تنظیموں کی جانب سے مشترکہ نیوز کانفرنس کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 'اگر لاک ڈاؤن کو یقینی نہ بنایا گیا اور معمولات زندگی بحال رکھنے کی اجازت دی گئی تو کورونا وائرس کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے۔'
معالجین کی تنبیہہ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس کے مختلف پہلو زیربحث لائے گئے۔ صارفین نے جہاں تجویز پر عمل کا مطالبہ کیا وہیں کچھ ایسے بھی تھے جو لاک ڈاؤن مزید جاری رہنے کی صورت میں پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل کی نشاندہی کرتے رہے۔ متعدد صارفین نے حکومت کی جانب سے خاطرخواہ اقدامات نہ کیے جانے کا شکوہ کیا تو ایسا کرتے ہوئے ممکنہ نتائج سے بھی خبردار کیا۔
ٹوئٹر صارف کامران یوسف نے اپنے تبصرے میں ان کے ڈاکٹر مشورہ دیں تو عمل ہوتا ہے اور ہمارے ایسا کریں تو سیاست کہلاتی ہے جیسی صورتحال کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ’دنیا بھر میں حکومتیں کورونا وائرس سے مقابلے کے لیے ڈاکٹروں کی تجاویز کی روشنی میں فیصلے کر رہی ہیں لیکن پاکستان میں جب ڈاکٹر اپنی رائے دیں تو حکومت کہتی ہے وہ سیاست کر رہے ہیں۔‘
عائشہ عباس نامی صارف گفتگو کا حصہ بنیں تو انہوں نے لکھا کہ ’لاک ڈاون سے متعلق ڈاکٹرز کے مطالبے کی بھرپور حمایت کرتی ہوں۔ افسوس ہے کہ ہماری حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ ہمارا نظام صحت دس ہزار سے زائد مریضوں کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔ اگر ہمارا طبی نظام بحران کا شکار ہوتا ہے تو قوم کو بدترین صورت حال کا سامنا کرنا ہو گا۔‘
پنجاب میں طبی عملے کے گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے کئی روز سے جاری بھوک ہڑتال کا ذکر ہوا تو صارفین کا کہنا تھا کہ ہیلتھ ورکرز اب بھی کورونا وائرس سے نبردآزما رہنے کے لیے حفاظتی لباس و آلات مانگ رہے ہیں۔
معصومہ زیدی نامی صارف نے لکھا ’انسانی حقوق سے متعلق تمام افراد ہم سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں کیونکہ ہم ذاتی فائدے کے لیے یہاں نہیں ہیں بلکہ اس لیے ہی کہ لوگوں کی خدمت کی جائے۔ ہم اپنے فرائض بھی ادا کر رہے ہیں اور بھوک ہڑتال بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
لاک ڈاؤن کیے جانے یا اس میں نرمی سے متعلق گفتگو میں رمضان اور آئندہ ماہ آنے والی عید کا ذکر بھی ہوا۔ سعدیہ شیخ نامی صارف نے لکھا ’یہ رمضان ایک ڈراؤنا کورونا فیسٹیول بننے جا رہا ہے۔ یہ عید شاید خوشیوں بھری نہ ہو۔ میں امید کرتی ہوں کہ مرد گھروں پر ہی ٹھہریں گے تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔‘
جہاں بہت سے صارفین لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کے ڈاکٹرز کے مطالبے کے حامی دکھائی دیے وہیں کچھ ایسے بھی تھے جو معاملے کے دیگر پہلوؤں کی جانب متوجہ کرتے رہے۔ سید انس نے لکھا کہ ’کیا آپ نے ان کی نیوز کانفرنس کی ٹائمنگ دیکھی ہے کہ جب تاجروں نے لاک ڈاؤن میں نہ رہنے کا کہا تو وہ سامنے آ گئے، کیا آپ یقین کریں گے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ یہ لوگ خوف کی فضا بنا رہے ہیں، اگر یہی سب جاری رہا تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔‘
ماہا نامی صارف نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’یہ ایک ڈراؤنی صورت حال ہے۔ بھوک سے مرو یا وائرس سے مرو اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ لے جاؤ۔‘
گفتگو کے اس رخ پر تبصرہ کرنے والے کچھ صارفین کا خیال تھا کہ وائرس سے موت کا امکان ایک فیصد ہے جب کہ بھوک سے یہ امکان سو فیصد ہے۔ تاہم اس خیال سے متفق دکھائی نہ دینے والوں کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے صرف موت ہی اصل مسئلہ نہیں بلکہ اس کا شکار فرد آئندہ کے لیے بھی سانس سے متعلق امراض کے نشانے پر رہ سکتا ہے۔ ایسا ہونے پر امراض قلب اور گردوں کے امراض لاحق ہو سکتے ہیں، اس صورت حال میں یہ اموات کورونا میں شمار نہیں کی جاتیں۔
ڈاکٹرز کی پرہجوم نیوز کانفرنس بھی کچھ صارفین کے نزدیک ایک ایسا معاملہ تھا جسے بہتر ہونا چاہیے تھا۔ زبیر انجم نامی صارف نے لکھا ’نصف درجن کے قریب انتہائی قابل اور سمجھدار ڈاکٹرز ایک ساتھ کراچی پریس کلب پہنچے، اپنےسامنے سو کے قریب صحافیوں،کیمرہ مینوں اورفوٹوگرافرز کو جمع کر کے کہا کہ مساجد میں نماز و تراویح کی اجازت دینے کا فیصلہ غلط ہے۔‘
ڈاکٹروں کی نیوز کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے حکومتی جماعت تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے اسے سندھ کی پی پی پی حکومت کی کاوش قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ ’افسوس کی بات پی پی پی کی سندھ حکومت جب خود کورونا پر سیاست کر کر کے تھک گئی تو سندھ سے ڈاکٹروں کو سیاست کے لیے آگے کر دیا۔ جو فیصلے این سی سی میں ہوئے اس میں ڈاکٹر بھی موجود تھے۔ براہ مہربانی سندھ کے ان چند سیاسی ڈاکٹروں سے گزارش ہے کہ آپ سیاست نہ کریں اس کے لئیے سندھ حکومت ہے ناں۔‘
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفرمرزا بھی گذشتہ روز ایک تقریب کے دوران خبردار کر چکے ہیں کہ آئندہ تین سے چار ہفتے پاکستان کے لیے سخت رہیں گے، ایسے میں کورونا وائرس کی صورت حال کو ہلکا نہ لیا جائے۔
پہلے خط اور بعد ازاں نیوز کانفرنس میں معالجین نے متنبہ کیا تھا کہ 'کورونا وائرس کے مریضوں کو طبی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں کی گنجائش تقریباً پوری ہو چکی ہے۔ ڈاکٹرز لاک ڈاؤن میں نرمی کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ وائرس کا شکار ہونے والوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔'
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں