پاکستان میں گندم اور چینی سے متعلق سکینڈل کی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ وزیراعظم کو پیش ہوئی اور پبلک کر دی گئی۔ جس کے بعد 25 اپریل کو فرانزک رپورٹ جاری کرنے کا اعلان کیا گیا۔
تاخیر کا شکار ہونے والی فرانزک رپورٹ کا اگرچہ سبھی کو شدت سے انتظار تھا، لیکن اس رپورٹ کے اجرا سے قبل ہی دیگر فورمز پر بھی گندم اور چینی بحران کو میگا سکینڈل قرار دے کر تحقیقات کا اعلان کر دیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
’چینی اور آٹا مہنگا ہونا حکومتی کوتاہی ہے‘Node ID: 459296
-
جہانگیر ترین کی تنقید، اعظم خان کون ہیں؟Node ID: 470251
-
نیب کا گندم اور چینی کے سکینڈل کی تحقیقات کا حکمNode ID: 473506
قومی احتساب بیورو نے 21 اپریل کو ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں گندم اور چینی بحران، قیمتوں میں اضافے، سمگلنگ اور سبسڈی سمیت تمام پہلوؤں کی جامع تحقیقات کی منظوری دی۔
سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ 'بالآخر تمام رپورٹس کو جمع تو ایک ہی فورم پر ہونا ہے۔ جیسے نیب کے پاس اختیار ہے کہ وہ دیگر اداروں سے تحقیقات اپنے پاس منتقل کر سکتا ہے۔ لیکن انکوائری کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد فرانزک کرانے کے حکم نے معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے۔'
اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ 'جب کمیشن نے نشاندہی کر دی تو اس کے بعد کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ اب نیب میں جائے گا تو معاملہ مزید طوالت پکڑے گا۔'
سابق نیب پراسیکیوٹر شہزاد انور بھٹی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات میں فرق یہ ہے کہ وہ اپنی تحقیق یا تفتیش کرکے اپنی سفارشات پر مبنی رپورٹ وزیراعظم کو بھجوا دے گی۔ وہ از خود کسی کو سزا دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ جبکہ نیب جو تحقیق اور تفتیش کرے گی شواہد ملنے کی صورت میں ریفرنس بھی فائل کرے گی اور کیس کو منطقی انجام تک بھی پہنچائے گی۔
دوسری جانب طویل عرصے سے خاموش پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اجلاس طلب کرلیا ہے۔
سابق نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی اس معاملے میں مداخلت خوش آئند ہے۔ کیونکہ تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ حکومت ایف آئی اے کی تحقیقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے، حقائق کو دبایا جا سکتا ہے لہٰذا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جیسی طاقتور پارلیمانی کمیٹی کا اپنے طور پر اس معاملے کی جانچ پڑتال اور نگرانی کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ اتنے بڑے معاشی سکینڈل کو صرف ایف آئی اے کے رحم و کرم پر چھوڑنا مناسب حکمت عملی نہیں۔'
بات یہیں پر ہی نہیں رکتی بلکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے گندم چینی بحران کے تناظر میں خصوصی آڈٹ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے مشترکہ آڈٹ ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے خصوصی آڈٹ کے لیے وزارت خزانہ، صنعت و پیداوار اور قومی تحفظ خوراک و تحقیق کے سیکرٹریز، گورنر سٹیٹ بینک، چئیرمین ایف بی آر کو خط لکھ کر تمام آکاونٹس کی تفصیلات اور متعلقہ ریکارڈ ٹیم کو دینے اور تعاون کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
اس صورت حال میں ایک عام شہری کے ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کس ادارے کی تحقیقات کی بنیاد پر کسی ملزم کو مجرم ٹھہرا کر سزا دی جائے گی اور قومی دولت واپس خزانے میں جمع ہو گی؟
ڈاکٹر خالد رانجھا کہتے ہیں کہ جگہ جگہ پر تحقیقات کا ملزمان کو فائدہ ہوگا۔ ملزم کی تو کوشش ہوتی ہے کہ وہ تاریخ پر تاریخ لے تاکہ وہ ثبوت ختم کر سکے۔ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکے۔ موجودہ صورت حال بالخصوص فرانزک رپورٹ میں تاخیر حکومت کی عدم دلچسپی ظاہر کر رہی ہے۔ جس کا واحد مقصد معاملے کو الجھا کر ملزمان کو ریلیف دینا ہے۔
سابق نیب پراسیکیوٹرعمران شفیق کا موقف ہے کہ 'تینوں تحقیقات اپنی جگہ سود مند ہیں، اور ہر تحقیق کی نوعیت بھی الگ ہے۔ آئندہ ایسی کرپشن کا راستہ روکنے کے لیے تمام متعلقہ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔'
جبکہ سابق نیب پراسیکیوٹر شہزاد رفیق بھٹی کہتے ہیں کہ پی اے سی اور آڈیٹر جنرل کی تحقیقات اور آڈٹ کی نوعیت مختلف ہے۔ نیب اور ایف آئی اے کی تحقیقات ان کے لیے معاون ثابت ہوں گی کہ وہ اندازہ کر سکیں کہ قومی خزانے کو مجموعی طور پر کتنا نقصان ہوا۔'
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں