روزے کی حالت میں گھر میں رہنا ناقابل برداشت ہو جاتا ہے(فوٹو ٹوئٹر)
فلسطین کے علاقہ غزہ میں بسنے والے مسلمانوں کے کئی خاندان رمضان المبارک میں افطاری کے لیے روایتی طور پر ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 14 سال سے اسرائیل کی جانب سے ناکہ بندی اور رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ان علاقوں میں بجلی کے تعطل کے باعث روزہ دار اپنے خاندانوں کے ہمراہ ساحل سمندر پر جمع ہو جاتے ہیں۔
مغرب کی نماز سے قبل روزانہ سیکڑوں خاندان اس مقام پر افطارکی ڈشوں کے ساتھ غروب آفتاب کا انتظار کرتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے ملازم محمد طافش نے بتایا کہ غزہ کی پٹی پر بسنے والے مسلمانوں کے پاس واحد تفریح ساحل سمندر ہے جہاں وہ آ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ رمضان میں بھی مجھے اور میرے کنبے کے 5 افراد کو بجلی کے تعطل کے باعث موم بتی کی روشنی میں افطار کرنا پڑتا تھا۔
محمد طافش نے بتایا کہ کئی سالوں کی ناکہ بندی اور داخلی راستوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ بجلی کی بندش کے باعث غزہ کی تقریبا20 لاکھ کی آبادی میں اکثریت اب اس ماحول میں رہنے کی عادی ہو چکی ہے۔80 فیصد آبادی ذریعہ معاش نہ ہونے کے سبب انسانی ہمدردی اور امداد پر انحصار کر رہی ہے۔
اس ماحول میں طافش کی طرح کے بہت سے دیگر افراد کے لیے ساحل سمندر ایک سستی تفریح اور وقت گزاری کا بہتر ذریعہ ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے ایک اور کارکن اکرم حماد نے بتایا کہ ساحل سمندر پر انتہائی سادگی سے افطار کیا جاتا ہے اور میں رمضان کے مہینے میں کئی مرتبہ اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آنا پسند کرتا ہوں۔
یہاں آنے سے زندگی کی کچھ اداسیوں اور بحرانوں کو بھولنے میں مدد ملتی ہے اور ساحل سمندر پر پکنک کا سا ماحول ہوتا ہے اور بچے کچھ دیر کے لیے بغیر کچھ خرچ کئے لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔
ہم گھر سے کچھ مشروب اور کھانے پینے کی چیزیں بنا کر ساتھ لے آتے ہیں۔
حماد جو اپنے خاندان کے چار افراد کے ساتھ غزہ پٹی میں رہتا ہے اس نے بتایا کہ روزے کی حالت میں بجلی نہ ہونے کے باعث گھر میں رہنا ناقابل برداشت ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت سمندر کنارے کچھ راحت محسوس ہوتی ہے۔
انہوں نےمزید بتایا کہ حالیہ کورونا وائرس کی وبا کے باوجود فلسطین میں رمضان کی روایات پر کچھ اثر نہیں پڑا۔ وسط مارچ سے حماس کی زیرقیادت حکام نے کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے سخت حفاظتی تدابیر پر عملدرآمد کر رکھا ہے۔
ان حفاظتی تدابیر میں سمندر کے کنارے بڑے اجتماعات کو روکنا اور مساجد میں نماز جمعہ معطل ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے زیادہ وقت گھر پر گزارنے سے کئی نئی عادات اپنانا پڑی ہیں۔ جس میں ہم مردوں کو گھر والوں کی مدد کے طور پر کھانا بنانے کے لیے کئی گھنٹے باورچی خانے میں گزارنے کا موقع بھی مل رہا ہے۔
اس کے علاوہ گھر کی صفائی ستھرائی میں مدد کرنے اور بچوں کی بہت سی عادات کو جاننے اور سمجھنے کا موقع بھی مل رہا ہے جب کہ اس سے قبل ہمارے لیے گھر ہوٹلوں کی مانند تھے کہ آئے کھانا کھایا اور سو گئے۔
آخر میں حماد نے بتایا کہ ہم لوگ نماز تراویح، افطار کے لیے اکٹھے ہونا اور بازاروں میں رش کے بغیر رمضان کے مہینے کا تصور نہیں کرسکتے تھے۔