Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب حکومت کے لیے چار شہر درد سر

پنجاب حکومت لاک ڈاؤن کے حوالے سے خصوصی پالیسی پر غور کر رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے سنیچر 9 مئی سے لاک ڈاؤن کو بتدریج کھولنے کے اعلان کے بعد آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی حکومت شش و پنج کا شکار ہے۔
اس مخمصے کی بنیادی وجہ پچھلے ایک ہفتے میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہے۔ محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے جمعے کو جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں ایک روز میں 961 نئے مریض سامنے آئے جس کے بعد مریضوں کی کل تعداد 10 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔

پنجاب حکومت کا تذبذب

ایسا نہیں ہے کہ پنجاب حکومت یہ لاک ڈاؤن کھولنا نہیں چاہتی، بلکہ پنجاب حکومت کے لیے اصل مسئلہ وہ چار شہر ہیں جو کورونا وائرس کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ان چار شہروں میں صوبائی دارالحکومت لاہور، راولپنڈی، گجرات اور گجرانوالہ شامل ہیں۔
شہری انتظامیہ کی طرف سے جمعرات کو گجرات شہر کے دو ہسپتالوں کو ہنگامی طور پر بند کرنا پڑا کیونکہ حاملہ خواتین اور ہسپتال کے عملے میں 30 سے زائد کیسز سامنے آئے۔
ان چار شہروں میں لاک ڈاون کو کیسے کھولا جائے؟ اس پر غور کرنے کے لیے جمعے کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم مومن علی آغا کی سربراہی میں ایک طویل اجلاس منعقد ہوا جس میں کور کمانڈ لاہور لیفٹننٹ جنرل ماجد احسان نے بھی شرکت کی۔
اجلاس کے بعد ایک مختصر اعلامیے میں صرف یہ بتایا گیا کہ ’کورونا کیسز کے بڑھنے پر سول و عسکری حکام میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی لیے لاہور اور دیگر شہروں میں کورونا کی روک تھام کے لیے خصوصی پالیسی بنائی جائے گی۔‘
پنجاب کے محکمہ داخلہ کے ایک اعلی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ اجلاس میں یہ طے پایا ہے کہ پنجاب لاک ڈاؤن کے حوالے سے وفاق سے مختلف پالیسی اپنائے گا۔
افسر کے مطابق ’اجلاس میں صوبائی دارالحکومت میں کاروبار کو تین دن مکمل بند رکھنے، لاک ڈاؤن کی مدت کو بڑھانے اور وہ اضلاع جہاں کورونا کے مریض کم ہیں یا حالات کنٹرول میں ہیں، وہاں لاک ڈاون میں نرمی کرنے کا جائزہ لیا گیا۔‘
اس اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم مومن اعلی آغا کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی جو ان گائیڈ لائنز کی روشنی میں سفارشات مرتب کر کے وفاقی حکومت سے مشاورت کرے گی۔
ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلی افسر کے مطابق 'یہی وجہ ہے کہ ابھی تک پنجاب حکومت نے لاک ڈاون کو نرم کرنے یا کھولنے کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔ کیونکہ اجلاس میں ایک مضبوط رائے کورونا کے مراکز چار شہروں کو مکمل بند رکھنے کی بھی تجویز دی گئی۔‘

کچھ شہروں میں لاک ڈاؤن قائم رکھنے پر غور کیا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب کے ہسپتال اور کورونا

پنجاب خاص طور پر صوبائی دارالحکومت میں محکمہ صحت نے ساڑھے سات ہزار سے زائد بیڈ کورونا کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں، ایسا کہنا ہے پنجاب کے سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر کے سیکرٹری نبیل احمد اعوان کا۔
انہوں نے بتایا ہے کہ اس وقت چار ہزار سے زائد مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں ’آپ کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب کے ہسپتالوں میں دستیاب وسائل میں سے 50 فیصد اس وقت کورونا کے مریض استعمال کر رہے ہیں۔‘
پنجاب میں ہسپتالوں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ایکسپو سنٹر میں ایک ہزار بیڈ پر مشتمل فیلڈ ہسپتال بھی قائم کیا گیا ہے جس میں اس وقت ساڑھے چار سو مریض داخل ہیں۔
سیکرٹری کے مطابق کورونا کے بڑھتے ہوئے مریضوں کو دیکھتے ہوئے ایک ہزار مزید بیڈ شامل پر کام کیا جا رہا ہے اور جلد ہی پنجاب کے سسٹم میں مزید ایک ہزار مریضوں کا سنبھالنے کی صلاحیت ہو گی۔
 

گھروں میں قرنطینہ

پنجاب کو اس وقت ایک اور صورت حال کا بھی سامنا ہے اور وہ ہیں ایسے کورونا کے مریض جن پر علامات ظاہر نہیں ہو رہیں لیکن ان کے ٹیسٹ مثبت ہیں۔ موجودہ قواعد کے مطابق کوئی بھی کورونا کا مریض مثبت آنے پر گھر پر نہیں رہ سکتا بلکہ اسے قرنطینہ سنٹر یا پھر ہسپتال میں قیام کرنا ہو گا۔

پنجاب میں کورونا کے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ ہفتے پنجاب حکومت کے کورونا ماہرین کی کمیٹی نے تحریری طور پر حکومت کو ایسے مریضوں کو گھروں میں قرنطینہ میں رکنے کی سفارش کی ہے جن کو علامات ظاہر نہیں ہو رہیں۔
پرائمری اینڈ سیکینڈری ہیلتھ سیکرٹری پنجاب کیپٹن عثمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ سفارشات حکومت کے پاس آ چکی ہیں لیکن حتمی فیصلہ کابینہ کمیٹی برائے کورونا ہی کرے گی، کیونکہ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہو گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے گھروں میں قرنطینہ کی اس لیے اجازت نہیں تھی کیونکہ مکمل لاک ڈاؤن تھا اور مریضوں کی تعداد بھی کم تھی اب اگر لاک ڈاؤن کھلنے جا رہا ہے تو پھر علامات کے بغیر والے مریضوں کو سنبھالنا مشکل ہو گا۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: