پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے گذشتہ ہفتے وفاق اور صوبائی حکومتوں کے مابین وسائل کی تقسیم کے لیے دسویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کی تشکیل کا اعلان کیا تو سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے دو دن بعد وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر این ایف سی کی تشکیل میں 'خامیوں' کی نشاندہی کرتے ہوئے نئے نوٹی فیکیشن کے اجرا کا مطالبہ کر دیا۔
دوسری طرف چند سیاسی شخصیات اور وکلا کی طرف سے کمیشن میں بلوچستان سے غیر سرکاری (پرائیویٹ) رکن کی حیثیت سے سابق نگران وفاقی وزیر جاوید جبار کے تقرر کی مخالفت بھی سامنے آئی۔
یوں دسواں این ایف سی ایوارڈ بھی تنازعے کا شکار ہو گیا۔ اس سے قبل آٹھواں اور نواں این ایف سی ایوارڈ بھی اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث ادھورا رہا تھا۔
مزید پڑھیں
-
اٹھارویں ترمیم نے وفاق کو دیوالیہ کردیا، وزیراعظمNode ID: 418516
-
’120 ارب کا سوال اٹھانے والوں نے بجٹ کی کتاب نہیں پڑھی‘Node ID: 478411
-
وزیراعظم یا تو سادہ ہیں یا پھر کرپٹ: بلاول بھٹوNode ID: 478451
12 مئی کو صدر مملکت کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹی فیکیشن کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و اقتصادی امور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ این ایف سی ایوارڈ کے چیئرمین ہوں گے جبکہ چاروں صوبائی وزرائے خزانہ کمیشن کے ارکان ہوں گے۔
کمیشن کے دیگر اراکین میں وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ و اقتصادی امور، پنجاب سے طارق باجوہ، سندھ سے ڈاکٹر اسد سعید، خیبر پختونخوا سے مشرف رسول اور بلوچستان سے جاوید جبار شامل ہیں۔
این ایف سی ایوارڈ ہوتا کیا ہے؟
پاکستان کی حکومت مختلف طرح کے ٹیکسز اور محصولات وغیرہ سے جو آمدنی اکھٹی کرتی ہے اس کی تقسیم کے لیے 1973 کے آئین کی شق 160 کے تحت صدر پاکستان کو ہر پانچ سال بعد ایک کمیشن بنانا ہوتا ہے جسے قومی مالیاتی کمیشن یا نیشنل فنانس کمیشن کہتے ہیں۔
کمیشن اس بات کا تعین کرتا ہے کہ قومی آمدنی کا کتنا حصہ وفاقی حکومت نے خود رکھنا ہے اور کتنا چاروں صوبوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
کمیشن میں وفاق اور چاروں صوبوں کے دو دو ارکان نمائندگی کرتے ہیں اور ہر صوبائی وزیر خزانہ اس کا سرکاری رکن ہوتا ہے جبکہ اس کے علاوہ ہر صوبے سے ایک غیر سرکاری رکن کی تقرری صدر مملکت صوبائی حکومتوں کی سفارش پر کرتے ہیں۔
کمیشن یہ طے کرتا ہے کہ جو قابل تقسیم وسائل ہیں ان میں سے وفاق کا حصہ کتنا اور صوبوں کا کتنا ہوگا۔ اس کے بعد یہ بھی طے کیا جاتا ہے کہ صوبوں کا جو مجموعی حصہ ہے اسے چاروں کے مابین کس فارمولے کے تحت بانٹا جائے گا؟
کمیشن کے تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں۔ جب ممبران کے مابین وسائل کی تقسیم پر اتفاق رائے ہو جائے تو پھر اس ایوارڈ کو اگلے پانچ سال کے لیے نافذ کر دیا جاتا ہے اور بجٹ میں وسائل کی تقسیم اسی فارمولے کے تحت کی جاتی ہے۔
موجودہ بجٹ کس فارمولے کے تحت بنے گا؟
چونکہ آئین کے تحت کمیشن میں اتفاق رائے ضروری ہے اس لیے اختلاف کی صورت میں پچھلے ایوارڈ کے تحت ہی بجٹ کی تشکیل ہوتی ہے۔ آئندہ مالی سال 2021-2020 کا بجٹ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت ہی بنایا جائے گا کیونکہ آٹھویں اور نویں کمیشنز اتفاق رائے سے کوئی ایوارڈ جاری کرنے میں ناکام رہے تھے۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی خصوصیات
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2010 میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان کیا گیا تھا جو صوبائی خود مختاری کے حوالے سے ایک تاریخی پیش رفت تھی کیونکہ اس میں پہلی بار وسائل میں سے وفاق کے حصے میں خاطر خواہ کمی لا کر صوبوں کا حصہ بڑھایا گیا۔
اس سے قبل وسائل کا سب سے بڑا حصہ وفاق کو جا رہا تھا اور صوبوں کو شکایت ہوتی تھی کہ ان کے پاس عوامی منصوبوں اور امور مملکت چلانے کے لیے مالی وسائل ہی نہیں ہوتے۔
ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں طے کیا گیا تھا کہ پاکستان کی کل آمدنی اگر سو روپے ہوگی تو اس میں سے وفاق کا حصہ 42 روپے پچاس پیسے ہوں گے جبکہ باقی کے 57 روپے اور پچاس پیسے پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پاس جائیں گے۔
اس ایوارڈ سے قبل صوبے آپس میں رقم آبادی کے لحاظ سے تقسیم کرتے تھے، تاہم اس میں کم آبادی والے صوبوں خصوصاً بلوچستان اور سندھ کو شکوہ ہوتا تھا کہ ان کو کم رقم ملی ہے۔
ساتویں ایوارڈ میں اس مسئلے کو کسی حد تک حل کیا گیا اور آبادی کے علاوہ دیگر عوامل کی بنیاد پر بھی وسائل کی تقسیم کی گئی جن میں پیداواری صلاحیت، منتشر آبادی اور پسماندگی جیسے عوامل بھی شامل تھے۔ اس کی وجہ سے زیادہ آبادی والے پنجاب کا حصہ کم ہو گیا اور چھوٹے صوبوں کا حصہ قدرے بڑھ گیا۔
دسویں این ایف سی پر سندھ کے کیا اعتراضات ہیں؟
وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ کے وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط کے مطابق دسویں این ایف سی ایوارڈ میں نہ صرف وفاقی وزیر خزانہ کے بجائے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی تقرری غیر آئینی ہے بلکہ اس کے ضابطہ کار پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
انھوں نے ایف این سی میں وفاقی سیکرٹری خزانہ کی شمولیت کو بھی غلط قرار دیا اور کہا کہ مشیر خزانہ قومی مالیاتی کمیشن کی صدارت نہیں کر سکتے۔
مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ این ایف سی کے لیے ارکان کی نامزدگی آئین میں درج طریقہ کار کے خلاف ہے، آئین کے آرٹیکل 160کے تحت نیا این ایف سی ایوارڈ تشکیل دیا جائے۔
وزیراعلٰی سندھ نے ٹی او آرز یا ضابطہ کار میں ان شقوں کی شمولیت پر بھی اعتراض کیا ہے جن کے تحت اس بار صوبوں کو کہا گیا ہے کہ وہ قومی قرضے کی ادائیگی میں بھی حصہ ڈالیں، سرکاری ملکیتی اداروں کے نقصانات بھی شیئر کریں اور صوبائی سطح پر دی جانے والی سبسڈیز کا بوجھ بھی خود اٹھائیں۔
صوبوں کا حصہ کم ہونے سے عوام کو نقصان ہوگا
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نیشنل فنانس کمیشن کے سابق رکن قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ وفاق کو پہلے ہی قومی وسائل کا ساڑھے بیالیس فیصد ملتا ہے اس لیے اسے اپنے تمام اخراجات وہیں سے پورے کرنے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد عوامی سہولیات کی فراہمی وفاق کے پاس نہیں ہے۔
اگر صوبوں کے حصے کی کٹوتی کی جائے گی تو عوام براہ براست متاثر ہوں گے کیونکہ صوبائی بجٹ سے نہ صرف متعدد ترقیاتی منصوبے اور سڑکیں وغیرہ بنائی جاتی ہیں بلکہ صحت، تعلیم اور دیگر سہولیات بھی عوام کو صوبے ہی فراہم کرتے ہیں اور اگر ان کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو وہ عوام کو یہ سہولیات کیسے فراہم کریں گے۔
آپس میں لڑنے کے بجائے کیک کا سائز بڑھائیں
معاشی تجزیہ کار اور دی نیوز کے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق وسائل کی تقسیم کے حوالے سے وفاق اور صوبوں میں تنازع نئی بات نہیں ہے، تاہم ان کے نزدیک مسئلے کے اصل حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ 'فی الحال تو سب کیک میں سے اپنے حصے کے لیے لڑ رہے ہیں مگر پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اس کا اصل حل کیک کا سائز بڑھانا ہے یعنی کہ ملک کے مجموعی وسائل اور آمدنی میں اضافہ کریں تاکہ سب کا حصہ بڑھ جائے۔'
مہتاب حیدر نے کہا کہ کیک کا سائز بڑھانے کے لیے پالیسی سازوں کو ملک میں سیاسی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کی اہمیت سمجھنا ہوگی اور معیشت کو ایسی سمت میں چلانا ہوگا کہ اس کا حجم سُکڑنے کے بجائے بڑھ جائے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں