ماضی میں یہ پہاڑ مدینہ اور مکہ جانے والوں کی گزرگاہ تھا (فوٹو: العربیہ نیٹ)
سعودی عرب کے شمال مغرب میں واقع تبوک ریجن کی الوجہ کمشنری کا کوہستانی علاقہ ’رال‘ انتہائی خوبصورت اور قابل دید مقام ہے-
علاقے کے قدرتی مناظر کے چرچے سن کر مدینہ سے فوٹو گرافر خالد الجہنی 462 کلو میٹرکا سفر طے کرکے فوٹو گرافی کے لیے الوجہ پہنچے-
العربیہ نیٹ کے مطابق خالد الجہنی کا کہنا ہے کہ وہ چالیس برس سے فوٹو گرافی کا شوق پورا کررہے ہین- انہوں نے الوجہ کے کوہستانی علاقے’رال‘ کے بارے میں اتنا کچھ سنا کہ وہ اس خوبصورت قدرتی مناظر سے مالا مال مقام کی فوٹو گرافی کے لیے بالآخر الوجہ پہنچ گئے۔
الجہنی نے بتایا کہ رال کا پہاڑی علاقہ الوجہ کمشنری سے 70 کلو میٹر جنوب مشرق میں ہے- یہ کمشنری کے قابل دید قدرتی مقامات میں سے ایک ہے-
ماضی قدیم میں اہم سٹریٹجک علاقہ ہوا کرتا تھا- یہاں سے مصری حجاج کے قافلے گزرتے تھے- یہ حرم کے مہمانوں کا اہم پڑاؤ ہوا کرتا تھا-
الجہنی کا کہنا ہے کہ رال پہاڑوں کی تشکیل بے حد منفرد ہے- اس کی چٹانیں دیگر پہاڑوں سے مختلف ہیں- رال پہاڑوں کی چٹانیں دیگر قدرتی اشیا کے ساتھ کچھ اس طرح مل جل گئی ہیں جن سے ان کا حسن دوبالا ہوگیا ہے-
رال پہاڑ کی چوٹی فلکیاتی مناظر کے شائقین کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے جہاں پہنچ کر ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں کی گردش کا حسن دیکھنے کے لیے فلکیاتی علوم کے دیوانے وقتاً فوقتاً جاتے رہتے ہیں-
آپٹیکل لینس کے ایک اور سعودی فوٹو گرافر محمد شریف کا کہنا ہے کہ رال پہاڑ کی چوٹی پر کہکشاؤں کے حسن کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے-
جب فوٹو گرافر اس پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہوکر کہکشاں کی تصویر کشی کرتا ہے تو اسے ستاروں کے جھرمٹ کی صورت میں کائنات کے خالق کی اچھوتی تخلیق نظر آتی ہے-
عام طور پر چاند کے ماہ کے شروع یا آخر میں آدھی رات کے وقت یہاں سے کہکشاں کی تصویر کشی کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے-
الشریف کا کہنا ہے کہ ’رال‘ پہاڑ کے دو حصے ہیں- ایک حصہ شمال میں ہے اور دوسراجنوب میں ان دونوں کے درمیان سے وادی سلع گزرتی ہے- یہاں مقامی لوگ سیر کے لیے آتے ہیں- یہ پہاڑ مدینہ اور مکہ جانے والے عازمین و زائرین کی گزر گاہ ہوا کرتا تھا-
لفظ رال عربی میں شترمرغ کے بچے کے لیے استعمال ہوتا ہے- رال پہاڑ الوجہ شہر سے 45 کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے- یہ شمالی اور جنوبی رال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک ہی پہاڑ لگتے ہیں۔