انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ میں ایک ہاتھی کی موت نے جہاں بے شمار لوگوں کو جذباتی طور پر بے چین کیا ہے وہیں اسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر منافرت پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
انڈیا میں کسی بڑے معاملے کو سیاسی رنگ دینا بہت آسان ہے لیکن حالیہ واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر کیرالہ کے وزیر اعلیٰ نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
ممبئی کو 100 سال میں پہلی مرتبہ سمندری طوفان سے خطرہNode ID: 482736
-
انڈیا میں پٹاخوں سے بھرا انناس کھا کر حاملہ ہتھنی ہلاکNode ID: 482776
-
کُتے کو گاڑی سے باندھ کر گھسیٹنے پر مقدمہ، ملزم گرفتارNode ID: 483191
کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائی وجیین نے جمعرات کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ہتھنی کی موت کے سلسلے میں تین مشتبہ افراد کی شناخت کی گئی ہے اور اس کی جانچ ریاستی پولیس اور محکمہ جنگلات مشترکہ طور پر کریں گے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ انصاف کی بالا دستی قائم کی جائے گی۔
لیکن دریں اثنا مرکز میں حکمراں جماعت بی جے پی کی رکن پارلیمان اور جانوروں کے حقوق کی علمبردار مینکا گاندھی نے خبر رساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا لیکن اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر مینکا گاندھی کو ان کے بیان کے لیے ٹرول کیا جا رہا ہے۔
مینکا گاندھی نے اے این آئی کو بتایا کہ یہ واقعہ ملاپورم میں ہوا ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی 70 فیصد ہے اور یہ علاقہ پلککڈ ضلعے سے 85 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان کی اس بات کی بڑے پیمانے پر تردید کی گئی ہے کیونکہ یہ واقعہ ملاپورم کے بجائے پلک کڈ میں پیش آیا تھا۔
![](/sites/default/files/pictures/June/36486/2020/000_1su4hp.jpg)
انھوں نے یہ بھی کہا کہ 'یہ قتل ہے اور ملاپورم ایسے واقعات کے لیے بدنام ہے اور وہ انڈیا کا سب سے پر تشدد ضلع ہے، مثال کے طور پر وہاں سڑک پر وہ لوگ زہر پھینک دیتے ہیں جس سے تین سو سے چار سو چڑیاں ایک ساتھ مر جاتی ہیں۔'
ان کے اس بیان سے بظاہر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان کا اشارہ مسلمانوں کی طرف ہے اور اس کے بعد ہی ہتھنی کے قتل کے لیے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کو ملزم ٹھہرایا گیا۔
وزیر اعلیٰ پینارائی نے کسی کا نام لیے بغیر ٹویٹ کیا ’ہمیں اس حقیقت سے دکھ پہنچا ہے کہ بعض لوگوں نے اس سانحے کا نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ غلط معلومات اور نیم سچائی پر جھوٹ پھیلانا سچائی کو ختم کرنا ہے۔ بعض نے تو اس بیانیے میں تعصب کو بھی شامل کر دیا۔ غلط ترجیحات۔'
Having said that, we are saddened by the fact some have used this tragedy to unleash a hate campaign. Lies built upon inaccurate descriptions and half truths were employed to obliterate the truth. Some even tried to import bigotry into the narrative. Wrong priorities.
— Pinarayi Vijayan (@vijayanpinarayi) June 4, 2020
دوسری جانب انڈیا میں ماحولیات کے وزیر پرکاش جاوڑیکر نے بھی مینکا گاندھی کے بیان کے بعد اسی انداز میں ہھتنی کی موت پر سخت ٹویٹ کیا اور واقعے کو ملا پورم کا بتایا۔ انھوں نے لکھا 'مرکزی حکومت نے کیرالہ کے مل اپورم میں ہاتھی کی موت کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیا ہے۔ ہم لوگ مجرم کو پکڑنے میں تمامتر کوششیں کر رہے ہیں۔ مارنے کے لیے پٹاخے کھلانا ہندوستان کی تہذیب نہیں ہے۔'
Central Government has taken a very serious note of the killing of an elephant in Mallapuram, #Kerala. We will not leave any stone unturned to investigate properly and nab the culprit(s). This is not an Indian culture to feed fire crackers and kill.@moefcc @PIB_India @PIBHindi
— Prakash Javadekar (@PrakashJavdekar) June 4, 2020
پرکاش جاوڑیکر کے بیان پر بھی بہت سے لوگوں نے غلط معلومات دینے پر معافی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ایک صارف نے لکھا ہے کہ 'کیا مرکزی حکومت یہی جوش و جذبہ شرمک سپیشل ٹرینوں میں انسانوں کی موت پر بھی دکھائے گی۔'
Dear Prakash Ji
Excellent
However, Will the Central Govt show the same Enthusiasm for the deaths of Human Lives Lost on the #ShramikSpecialTrains https://t.co/8uVeqtwUeg@MaryDenniz @RK_Insight @ksrishtyInc @GaremaJ @The_ManishSood @ShashiTharoor @bansalavani @aayeff1
— Darryl (@DickDarryl) June 4, 2020
مینکا گاندھی کے بیان پر ایک صارف امورتھا ایس نایر نے لکھا ہے کہ 'ملا پورم کے بارے میں اس طرح کے بیان سے قبل مینکا گاندھی کو پرتشدد اضلاع کے اعداد و شمار دیکھنے چاہیے تھے۔ انھیں ہمارے ضلعے کے بارے میں نفرت انگیز بیان کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔'
Menaka Gandhi should study the crime statistics before making the comment that malappuram is a violent district!!!!
She should apologize to the people of kerala for her hatred remarks about one of our districts!!!! #boycottmenakagandhi pic.twitter.com/gPQdpSqoe5— Amrutha Nair (@AmruthaSNair3) June 5, 2020
اس کے ساتھ ہی انھوں نے ملاپورم ضلعے اور اترپردیش کے سلطان پور ضلعے کے اعدادوشمار ٹویٹ کیے جس میں دونوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ سلطان پور وہ ضلع ہے جہاں سے مینکا گاندھی جیت کر رکن پارلیمان بنی ہیں۔ اس طرح کے اعداد و شمار بہت سے دوسرے صارفین نے بھی شیئر کیے ہیں۔
پرنٹ انڈیا کی مدیر رما لکشمی نے اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر ٹویٹ کیا 'انڈیا میں واٹس اپ اور ٹوئٹر اس طرح کام کرتا ہے۔ ایک ہاتھی مرتا ہے اور لوگ کہنے لگتے ہیں کہ کیرالہ میں لیفٹ (کمیونسٹ) اور اسلام پسند ہاتھیوں کو مارنا چاہتے ہیں کیونکہ انھیں ہندوؤں کے تیوہاروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر آپ اس پر یقین کرتے ہیں تو آپ کو 'مسلم فتور سنڈروم' نام کی بیماری ہے۔'
This is how WhatsApp, Twitter works in new India. An elephant dies. And people are saying the Left & Islamists in Kerala want to kill elephants becoz they are used in Hindu religious festivals!
If u believe things like this, then u r suffering from 'Muslim Derangement Syndrome'
— rama lakshmi (@RamaNewDelhi) June 4, 2020
ٹوئٹر پر ریاست بہار کی ایک اور ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس کے مطابق 300 نیل گائے کو زندہ دفنایا گیا ہے تاکہ اس کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پایا جا سکے۔
BJP govt. buried alive 300 Nilgai in Bihar to control their population
.
.and now these hypocrites are giving lecture to others on animal rights ! #Istandwithmalappuram pic.twitter.com/KnoK2lbWKU
— Political Di⏺ (@PoliticalDi) June 4, 2020