یہاں 160،000 سے زیادہ رجسٹرڈ رضاکار موجود ہیں(فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب میں جہاں طبی عملہ کورونا وائرس کے مریضوں کی دیکھ بھال میں رات دن ایک کیے ہوئے ہے وہیں رضا کاروں کی بڑی تعداد بھی فرنٹ لائن ہیروز کی طرح اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی رضاکار کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کی عالمی فوج کا حصہ ہیں۔
اپریل میں سعودی وزارت صحت نے عالمی وباء سے بچاؤ کے اقدامات میں حصہ لینے کے لیے رضاکاروں سے ویب سائٹ
اس ویب سائٹ پر رضاکارانہ خدمات کے 400 سے زیادہ شعبے شامل ہیں۔ یہاں 160،000 سے زیادہ رجسٹرڈ رضاکار موجود ہیں جن میں سے 72،000 سرگرم ہیں۔
اس ویب سائٹ پر پورے سعودی عرب سے رضاکاروں نے سائن اپ کیا ہے ان میں 32 فیصد خواتین جبکہ 68 فیصد مرد ہیں۔
صحت کی دیکھ بھال کے رضاکار مختلف جگہوں پر شعبہ صحت سے منسلک حکام کی مدد کر رہے ہیں۔ کچھ قرنطینہ میں مریضوں کی نگرانی پر مامور ہیں جب کہ کئی دیگر کورونا وائرس کے ٹیسٹ کرانے اور مریضوں کے گھروں تک دوا پہنچانے کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
بہت سے رضاکاروں کو ہنگامی طور پر تیار کیے گئے کمروں میں مریضوں کی دیکھ بھال پر مامور کیا گیا ہے جبکہ دیگر خریداری مراکز اور مالز میں تعینات ہیں تاکہ آنے والوں میں احتیاطی تدابیر کے بارے میں شعور اجاگر کیا جاسکے۔
مکہ کے کدی فیلڈ اسپتال میں کام کرنے والی لیب ٹیکنیشن 27 سالہ خاتون دعا البخاری وبائی مرض میں مبتلا ہو گئی ہیں جبکہ ان کا گھر جدہ میں ہے۔
دعا بخاری نے مکہ کے پر ہجوم محلے میں بڑے پیمانے پر 2500 افراد کے کورونا ٹیسٹ کرنے میں بطور رضاکار اپنی خدمات فراہم کی تھیں۔ وہ اپنے اس تجربے کے بارے میں کہتی ہیں کہ 'چیلنج کے طور پر میرے لیے اعزاز ہے۔'
وزارت صحت نے مسلح افواج کے تعاون سے اور سعودی عرب میں متاثرہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے نمٹنے کے لیے مکہ کے صحت کے حکام کے تعاون سے کدی کے علاقے میں فیلڈ اسپتال قائم کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'جب میں نے رضاکارانہ طور پر ان خدمات کے بارے میں سنا تو اس کا حصہ بننے کے لیے تیار ہو گئی ۔ ابتداء میں خوفزدہ تھی لیکن مجھے معلوم تھا کہ میرے پاس اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔'
الخبر میں ایک رضاکار خاتون 21 سالہ نبراس الحجی جو انستھیزیا ٹیکنوولوجسٹ کی طالبہ ہیں، العربیہ صحت مرکز میں رضاکار کی حیثیت سے کام کررہی ہیں جب کہ ان کا گھر یہاں سے سیکڑوں میل دور الاحساء کے علاقے میں ہے۔
نبراس الحجی نے کہا ہے کہ خاص طور پر غیر یقینی صورتحال کے وقت گھر چھوڑنا مشکل تھا۔
انہوں نے کہا کہ 'پہلے تو میں خوفزدہ تھی جو حالات کے تحت فطری تھا لیکن شعبہ صحت کی طالبہ کی حیثیت سے میں یہ سمجھتی تھی کہ مریضوں کی جیسے بھی مدد کی جا سکتی ہے یہ میرا فرض ہے۔'
انہوں نے مزید کہا "میں نے خود کو سمجھایا کہ خوف کو خود پر حاوی نہیں ہونے دوں گی۔ خوف انسانی فطرت کا حصہ ضرور ہے لیکن اس کے باعث میں مریضوں کی خدمت سے نہیں رک سکتی۔'
سکاکا کے علاقے میں موجود 26 سالہ نوجوان ریان المطیری جو شعبہ طب میں آنکھوں کے طبیب ہیں انہوں نے اپنے رہائشی شہر القصیم سے دور کورونا وائرس سے متعلق جانچ کرنے اور صحت سے متعلق کارکنوں کو وائرس کے بارے میں آگاہی بڑھانے میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔