یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کرجانا
پرندوں کا جانا ہو یا ٹڈّیوں کا آنا، دونوں ہی ناگہانی آفت کی علامات ہیں۔ اردو محاورہ ہے، ٹِڈّی کا آنا کال کی نِشانی‘۔ آج کل پاکستان اس نشانی کے نشانے پر ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اس آفت کا ذکر سنجیدہ مزاح کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ بعض چینلز ’ٹڈی دَل‘ کو ’ٹڈی دِل‘ پکار رہے اور بعض ہیں کہ بات میں زور پیدا کرنے کے لیے ’ٹڈی دَل‘ کے ساتھ غیر ضروری الفاظ کا اضافہ کررہے ہیں۔ ثبوت کے طور پر چند مثالیں حاضر ہیں۔
’چرمیان کے رہائشی اور زمین دار محب اللہ ٹڈی دَل کی فوج دیکھ کر پریشان‘۔
دوسری جگہ ہے:
’ ٹڈی دَل کا غول جنوبی وزیرستان میں داخل، فصلوں اور باغات کو شدید نقصان‘۔
ایک خبر میں ہے:
’کراچی سے کوئٹہ جانے والا پی آئی اے کا طیارہ ٹڈی دَل کے جُھنڈ سے ٹکرا گیا‘۔
مزید پڑھیں
-
’حال دلِ کا بیان فراز کی کمزوری تھا‘Node ID: 476441
-
ذکر کچھ ’جُگ جُگ جیو‘ اور ’ہرفن مولا‘ کاNode ID: 478126
-
نیٹ فرہاد کو شیریں سے ملا دیتا ہےNode ID: 482261
بات یہ ہے کہ ’ٹڈی دَل‘ کی ترکیب میں لفظ ’دَل‘ کے معنی ہی ’انبوہ، گروہ ، جتھا اور فوج‘ ہیں۔ گمان ہے کہ لکھنے والے نے ’ٹڈی دَل‘ کو ٹڈی کی کوئی خاص قسم جانا ہے اور حسب توفیق اس کے ساتھ ’فوج، غول اور جھنڈ‘ کا اضافہ کردیا ہے۔
ہمیں نوازشریف کا دوسرا دورِحکومت یاد آگیا، جب گندم کی قلت ہوئی تو ایک اخبار نے زورِ بیان سے کام لیتے ہوئے سرخی جمائی: ’ملک میں آٹے کا قحط الرجال‘۔
بعد میں گندم کا بحران تو ختم ہوگیا مگر ’قحط الرجال‘ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا، نتیجہ آپ کے سامنے ہے :
سارے بڑے جب مر گئے
چھوٹا ہوا سب سے بڑا
بات سنجیدہ نہ ہوجائے اس لیے موضوع پر آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ٹڈیاں افریقہ میں پروان چڑھیں اور پاکستان پرچڑھ دوڑیں، اب پاکستان ہی نہیں انڈیا بھی ان کی زد میں ہے۔ مگر انڈیا کے صحافی’ارناب گوسوامی‘ کا کہنا ہے:
’پاکستان ٹڈیوں کو دہشت گرد بنا کر بھارت بھیج رہا ہے‘
اس بیان کے بعد سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر’ارناب گوسوامی‘ کی عزت افزائی جن ’شَبدوں‘ میں ہورہی ہے اسے محتاط لفظوں میں غیر پارلیمانی زبان کہتے ہیں۔

’ٹڈّی‘ کو عربی میں ’جراد‘ کہتے ہیں۔ ’جراد‘ لفظ ’جَرَدَ‘ سے نکلا ہے، جس کے معنی ننگا کرنے کے ہیں۔ چونکہ ٹڈی سبزے کا صفایا کرکے زمین کو بے لباس کردیتی ہے، اس لیے ’جراد‘ کہلاتی ہے۔ جب کہ ’ارض مجرودۃ‘ اس زمین کو کہتے ہیں جس کی نباتات کو ٹڈیوں نے کھا کرصاف کردیا ہو۔
اردو کا ’ٹڈی‘ اورعربی کا ’جراد‘ فارسی زبان میں ’ملخ‘ ہے۔ میرزا غالب نے اپنے اردو کلام میں ’ملخ‘ کو صرف ایک بار ’برتا‘ ہے اور وہ بھی کھیت اجاڑ دینے کے معنی میں:
غالب کچھ اپنی سعی سے لہنا نہیں مجھے
خرمن جلے اگر نہ ملخ کھائے کِشت کو
ادھرغالب ٹڈی کے کھیت کھانے کا شکوہ ہے تو دوسری طرف پاکستان میں ان ٹڈیوں کی کڑھائی بنانے اور بریانی کھانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان ٹڈیوں کو مرغیوں کی ’فیڈ‘ میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اسے کہتے ہیں بحران میں امکان ڈھونڈ نکالنا۔
حوادث سے الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے ناکامیوں پہ اشک برسانا نہیں آتا
ایک طالب علم حمزہ طارق نے پوچھا ہے کہ ’تالیف اور تلف‘ کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟ اگر یہ دونوں الفاظ ایک جڑ (root) سے متعلق ہیں تو پھر ان کے معنی میں اتنا فرق کیوں ہے؟

’تالیف‘ کا مادہ یا جڑ(root) الف ہے۔ اس سے لفظ ’اَلِفَہ‘ ہے جس کے معنی میں ’مانوس ہونا اور محبت کرنا‘ شامل ہیں۔ پھر اس اُنسیت اورمحبت سے جمع ہونے اورجُڑنے کا مفہوم پیدا ہوا، اسے لفظ ’الفت‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ جس کے متعلق شان الحق حقی کا مشہور شعرہے:
تم سے الفت کے تقاضے نہ نباہے جاتے
ورنہ ہم کو بھی تمنا تھی کہ چاہے جاتے
اس ’الف‘ سے لفظ ’مؤلف‘ بھی ہے جس کے معنی ’جمع کرنے والا‘ ہے۔ اردو میں رائج عربی ترکیب ’مؤلف القلوب‘ دیکھو جس کے معنی دلوں کو جوڑنے والا ہے۔ اس ’مؤلف‘ سے لفظ ’تالیف‘ ہے۔ جو ’جمع‘ کی جانے والی چیز کو کہتے ہیں۔ اس کے معنی و مفہوم میں’ ایک چیز کا دوسری چیز سے ربط ، چند چیزوں کا اختلاط ، میل اور پیوند کاری‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اب ترکیب ’تالیفِ قلب‘ پر غور کریں بات آسانی سے سمجھ آجائے گی۔اس کے علاوہ ’تالیف‘ کو آپ میرزا اسد اللہ خان غالب کے مشہور شعر میں دیکھ سکتے ہیں جس کی ایک ترکیب کو فیض احمد فیض نے اپنی کلیات کا سرنامہ بنایا ہے:
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
