نیپال کی پارلیمنٹ نے ہفتے کے روز ایک خصوصی اجلاس کے دوران اس نقشے کو منظوری دے دی جس میں تین ایسے علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جن پر انڈیا کے ساتھ تنازع چل رہا ہے۔
سرحدی تنازعے کی وجہ سے دونوں ہمسایوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انڈیا نے اپنے فوری ردعمل میں نیپال کے اقدام کو ’ناقابل عمل‘ قرار دے دیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات گذشتہ ماہ اس وقت کشیدہ ہوئے جب انڈیا نے ریاست اترکھنڈ میں 80 کلومیٹر سڑک کا افتتاح کیا، یہ سڑک متنازع علاقے لیپو لیکھ پاس تک پہنچتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا میں بھی نسل پرستی اور ذات پات پر بحثNode ID: 484256
-
سرحدی کشیدگی کم کرنے پر انڈیا اور چین کے درمیان ’اتفاق رائے‘Node ID: 484316
-
’سعودی تنصیبات پر ایرانی ساختہ میزائل سے حملہ ہوا‘Node ID: 484701
نیپال نے انڈیا کے اس اقدام کی مذمت کی تھی جس کے بعد نیپالی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ایک نیا سیاسی نقشہ شائع کرے گا جس میں لیپو لیکھ اور متنازع زونز کالا پانی اور لمپیا دھورا شامل ہوں گے۔
ایوان نمائندگان نے ہفتے کے روز نظر ثانی شدہ قومی نشان کے لیے ترمیمی بل کی منظوری دی۔
سپیکر اگنی پرساد سپکوٹا نے کہا کہ اس بل کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔ اس بل کے نافذ ہونے سے پہلے قومی اسمبلی اور صدر اس کی توثیق کریں گے۔
دونوں ممالک کے درمیان تین سو کلومیٹر سے زیادہ علاقے پر کشیدگی ہے، اس علاقے میں نیپال اور انڈیا کی سرحدیں چین سے ملی ہوئی ہیں۔
نیپال 1816 کے معاہدے تحت لیپو لیکھ پر دعوے دار ہے جس کی سرحد انڈیا کے ساتھ ملتی ہے۔
نیپال کالا پانی کے ساتھ ملحقہ علاقوں کا دعویٰ کرتا ہے اگرچہ 1962 میں انڈیا اور چین کے درمیان جنگ کے بعد انڈین فوج وہاں تعینات ہے۔ نیپال نے بھی کالا پانی کے قریب اپنی فوج تعینات کی تھی۔
نیپال اور انڈیا اس تنازعے پر بات چیت کے لیے اتفاق کیا ہے لیکن کھٹمنڈو کا کہنا ہے کہ اس کا ہمسایہ انڈیا تاریخ مقرر نہیں کرے گا۔
نیپال کے قانون، انصاف اور پارلیمانی امور کے وزیر نے پارلیمان کو بتایا کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
انڈیا کے وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستوا نے کہا ہے کہ دعوؤں کی مصنوعی توسیع حقائق اور ثبوت پر مبنی نہیں اور یہ ناقابل عمل ہے۔
نیپال نے انڈین آرمی چیف کے اس بیان کے بعد غصے کا اظہار کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ نیپال کا ردعمل کسی اور کے اشارے پر ہو۔
انڈین آرمی چیف نے اس میں چین کے ملوث ہونے کی جانب اشارہ کیا تھا۔
نیپالی پارلیمان کی جانب سے نئے سیاسی نقشے کی منظوری کے بعد ٹوئٹر پر انڈین صارفین نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
انڈین نیشنل کانگرس کے رکن اور سیاستدان گوراو گوگوئے نے ٹویٹ کیا کہ نیپال کو ہمارے مضبوط اتحادیوں میں شامل ہونا چایئے تھا۔
Nepal should be one of our strongest allies. Its decision today shows how much Indian foreign policy has suffered under PM Modi.
— Gaurav Gogoi (@GauravGogoiAsm) June 13, 2020
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیپال کے آج کے فیصلے نے دکھایا کہ وزیراعظم مودی کے تحت انڈین خارجہ پالیسی کو کتنا نقصان اٹھانا پڑا۔
انڈین صحافی سوہاسینی حیدر ننے ٹویٹ کیا کہ گزشتہ چھ ماہ میں اس مسئلے کو حل کرنے ایک میٹنگ طے کرنے کے بجائے نیپال اور انڈیا کی حکومت نے خود کو ایک نئے مسئلے تنازعے میں دھکیل دیا ہے۔
Utter failure of diplomacy by New Delhi and Kathmandu... Instead of scheduling a meeting to resolve the issue sometime in the last six months, Nepal and Indian governments have hurtled into a whole new dispute. https://t.co/0QHaIkwDOg
— Suhasini Haidar (@suhasinih) June 13, 2020