ترک حکومت نے لیبیا میں اب تک اپنا ایک بھی فوجی نہیں بھیجا۔ اس کے باوجود ترک حکومت لیبیا میں ہونے والی جنگ میں روزانہ کی بنیاد پر دخل انداز نظر آ رہی ہے۔
ترک حکومت لیبیا کی وفاقی حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ طرابلس کا دفاع بڑی مشکل سے کر رہی ہے۔ ترکی آٹھ برس سے لیبیا کی جنگ میں برابر کا شریک ہے۔ تب سے یہاں خانہ جنگی کی شروعات ہو ئیں۔ ترکی کو لیبیا میں ہونے والی ہر تبدیلی سے دلچسپی ہے۔ ترک حکومت کا جواز یہ ہے کہ وہ وہاں بھاری سرمایہ کاری کیے ہوئے ہے۔
انقرہ 2011 میں معمر قذافی کی حکومت کے سقوط سے پہلے سے لیبیا کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے کیے ہو ئے ہے۔ جب ترک صدر رجب طیب اردغان نے گزشتہ ہفتے نئی آبدوز کا افتتاح کیا اور لیبیا تک مار کا انتباہ دیا تب اہل لیبیا نے اپنے ساحل کے سامنے موجود ترکی کے ایک جہاز پر قبضہ کرلیا تھا۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36566/2019/turky11111.jpg)
ہر جگہ لڑائی اور دخل اندازی کا ایک اور سبب ذاتی نوعیت کا ہے۔ ترک صدر رجب طیباردوغان خود کو علاقے کا رہنما بنانے کے خواہشمند ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کا ملک ترکی علاقے کی محوری طاقت ہے۔
رجب طیباردوغان کے عہد صدارت کے دوران ترکی کا منصوبہ علاقے کی سب سے بڑی طاقت بننا تھاتاہم فتوحات سے کہیں زیادہ ناکامیاں ترکی کے حصے میں آئیں۔
ترکی کو سب سے زیادہ جھٹکا اپنے اتحادی محمد مرسی کی حکومت کے سقوط کی صورت میں ہوا ہے۔
ترکی کو مصر میں الاخوان کے اقتدار کا سورج غروب ہونے پر بڑا جھٹکا لگا تھا۔ ایک برس کے اندر اخوان کا اقتدار ختم ہوگیا۔ رجب طیباردوغان مصر پر اقتدار کی بازیابی کے لیے اب بھی کوشاں ہیں۔ اسی لیے وہ استنبول میں الاخوان کی قیادت کی میزبانی کررہے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36566/2019/turky_22222.jpg)
ترکی کو دوسری ناکامی سوڈان میں ہوئی جہاں اس کے اتحادی عمر البشیر کی حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ تین عشروں سے سوڈان کی حکمراں جماعت الاخوان بھی شکست کھا گئی۔ سوڈان میں نئی حکومت عوامی تحریک کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔ نئی حکومت نے ترکی کے ساتھ فوجی تعاون کا معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نئی حکومت نے جزیرہ سواکن کوکرائے پر دینے کا معاہدہ بھی منسوخ کردیا۔ ترکوں نے یہ جزیرہ عمر البشیر کی حکومت سے حاصل کیا تھا۔ یہاں وہ اپنا فوجی اڈہ بنانا چاہتے تھے تاکہ مصر کے قریب اور سعودی ساحلوں کے سامنے اپنا فوجی وجود مسلط کرسکیں۔
خلیج میں بھی ترکی موجود ہے۔ قطر میں پانچ ہزار ترک فوجی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ انہیں فضائیہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ قطر کی فضاﺅں پر امریکی افواج کا کنٹرول ہے۔ قطر میں دو فوجی اڈوں سے امریکہ کاقطر کی تمام فضاﺅں پر کنٹرول ا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی بحران میں ترک فوج کا کردار ثانوی نوعیت کا ہوگیا ہے۔
شام میں بھی ترک افواج موجود ہیں۔ وہاں ترک افواج کے عسکری آپریشن متحرک صحرا کی مانند ہیں۔ دو برس قبل ترکی نے وہاں ’زیتون کی شاخ‘ کے نام سے فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ ترکی کا مقصد مسلح کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں کو قابو کرنے کا تھا اور اب بھی ہے۔ کرد ترکی کے اصل دشمن ہیں۔ ترکی نے اسی غرض سے روس، ایران اور شام کے ساتھ متعدد معاہدے کیے اور اپنے کئی مطالبات سے دستبردار ہوا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36566/2019/turky_3333.jpg)
شام میں صورتحال اس بات سے مزید پیچیدہ ہوگئی کہ رجب طیباردوغان دس لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو سرحدوں پر آباد کرنے کا خطرناک منصوبہ نافذ کرنے جارہے ہیں۔
اردگان کا کہنا ہے کہ وہ شامی پناہ گزینوں کو ترکی کے اندرونی علاقوںسے زبردستی سرحدی علاقوں میں منتقل کریں گے۔ انہیں ایسے علاقوں میں آباد ہونے کے لیے مجبور کریں گے جو کردوں کے حصار میں ہیں۔
رجب طیباردوغان علیحدگی پسند کردوں کے حملوں سے ترک علاقوں کے تحفظ کے لیے شامی پناہ گزینوں کو انسانی دیوار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
ترک صدر کا کہنا ہے کہ وہ شام کے دس علاقوں اور 140قریوں کو دس لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کی آبادی کے لیے استعمال کریں گے۔ یہ پناہ گزیں موجودہ خطرناک بدامنی کے حالات میں ترکی کے اندرونی علاقوں سے وہاں منتقل ہونے پر راضی نہیں ہیں۔
ترکی افغانستان میں بھی امریکی افواج کے ساتھ موجود ہے۔ ترک افواج نے 2001 میں افغانستان پر لشکر کشی مہم میں امریکی افواج کا ساتھ دیا تھا اور اب بھی وہ طالبان کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان سے لیبیا تک ترک افواج کی تعناتی ترکی کو واقعتاعلاقائی طاقت بنانے کے لیے کافی ہے؟
غالب گمان یہ ہے کہ اس کے پیچھے رجب طیباردوغان کی قیادت کی ذاتی خواہش کا بڑا دخل ہے۔ ایسا لگتاہے کہاردوغان کے یہ جذبات ہی انہیں اقتدار سے باہر کردیں گے یا بیرونی دنیا میں ان کی فنڈنگ کا خاتمہ کر ڈالیں گے۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36566/2019/turky_55555.jpg)