عرب فلمساز خواتین کی فلمیں ’کانز 2020‘ کے لیے نامزد
عرب فلمساز خواتین کی فلمیں ’کانز 2020‘ کے لیے نامزد
ہفتہ 27 جون 2020 8:44
کانز کے لیے نامزد ہونے والی 16 میں سے تین فلمیں عرب یا عرب نژاد خواتین نے بنائی ہیں۔ (فوٹو عرب نیوز)
کورونا وائرس کی وبا کے باعث رواں سال فلموں کے بڑے فیسٹیول جیسا کہ کانز شاید منعقد نہ ہو لیکن فلم انڈسٹری میں صنفی مساوات کے حصول کی کوششوں میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے کیونکہ اس سال کانز کے لیے نامزد ہونے والی 56 فلموں میں سے 16 خواتین نے بنائی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق 16 میں سے تین فلمیں عرب خواتین نے بنائی ہیں، جن میں لبنان کی ڈینیل اربد، مصر کی ایتن امین اور الجیریا نژار فرانسیسی فلم ساز مائیون شامل ہیں۔
لبنانی فلم ساز ڈینیل اربد کی فلم 1992 کے ایک ناول پر مبنی ہے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ’می ٹو‘ کی تحریک شروع ہونے سے پہلے سے فلمیں بنا رہی ہیں۔ ’مجھے نہیں لگتا کہ فلم انڈسٹری میں میں مردوں اور عورتوں میں کچھ زیادہ تفریق ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عورت ہونا ان کے راستے میں رکاؤٹ کبھی نہیں بنا۔
'لیکن مجھے بہت خوشی ہے کہ خواتین کی کارکردگی کو زیر غور لایا جا رہا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ کانز میں خواتین کی نمائندگی مکمل طور پر اطمینان بخش نہیں ہے۔ لیکن ہم نے صحیح سمت کی طرف رُخ کیا ہے۔
ایتن امین کی فلم جو انہوں نے ہدایتکار محمود عزت کے ساتھ بنائی ہے، میں دو بہنوں کی کہانی بتائی گئی ہے جن کا تعلق ایک انتہائی قدامت پسند خاندان سے ہے۔
ان میں سے ایک بہن سوشل میڈیا پر چھپ کر ایک الگ زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ یہ بہن خود کشی کر لیتی ہے جس کی وجہ معلوم کرنے کے لیے اس کی چھوٹی بہن ایک دوسرے ملک تک کا سفر کرتی ہے۔
ایتن امین کا ماننا ہے کہ مصر میں فلم انڈسٹری مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مشکل ہے۔
'مجھے ہر بار اپنے آپ کو منوانا پڑتا ہے جیسا کہ یہ میرا پہلا پراجیکٹ ہو۔ مجھے اپنے مرد کولیگز سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے، لیکن انہیں مجھ سے زیادہ مواقع ملے ہیں۔ اور ان کی آمدنی مجھ سے زیادہ ہے۔'
اس وجہ سے ان کا ماننا ہے کہ فلم انڈسٹری میں عورت ہونا ایک رکاؤٹ ہے اور یہ کہ ہر جگہ مردوں کا غلبہ ہے۔
'تاہم میں ہمیشہ اچھی فلموں کا ساتھ دیتی ہوں، چاہے جس نے بھی بنائی ہوں۔'
اس سوال پر کہ انہیں فلم انڈسٹری میں توازن لانے کس چیز کی ضرورت ہے، ایتن امین کا کہنا تھا کہ انہیں عوام اور یورپ کی جانب سے فنڈنگ کی ضرورت ہے۔