جب دنیا کے دو سب سے بڑے ملک سرحدوں پر اپنی فوجیں اکھٹی کر رہے ہوں، ان کے جنگی طیارے دن رات سرحدوں کے قریب پروازیں کر رہے ہوں، کہیں بنکر بنائے جا رہے ہوں اور کہیں تیز بہتے ہوئے دریاؤں پر پل۔ جب روس، فرانس، اسرائیل اور امریکہ سے کہا جا رہا ہو کہ بھائی آپ کو جو فوجی ساز و سامان کا آرڈر دیا تھا اس کی جلد سے جلد ہوم ڈیلیوری کرا دیجیے تو پھر اگر ذہن میں یہ خیال آئے کہ حالات سنگین تو پہلے سے ہی تھے اب لگتا ہے کہ اور خراب ہو رہے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے؟
مزید پڑھیں
-
چینی فوج لداخ میں داخل، طیارے کی لینڈنگNode ID: 16401
-
انڈیا میں ٹک ٹاک سمیت 59 چینی ایپلی کیشنز پر پابندیNode ID: 488851
-
’انڈینز کا ڈیٹا چین کے ساتھ شیئر نہیں کیا‘Node ID: 488961
اور پھر یہ خبر آئے کہ انڈیا نے 59 چینی ایپس پر پابندی لگا دی ہے تو فکر بڑھنے کے بجائے پریشر تھوڑا ریلیز ہونا فطری بات ہے کیونکہ بائیکاٹ بائیکاٹ کھیلنا جنگ کرنے سے کہیں بہتر آئیڈیا ہے، لیکن بس یہ سمجھ لیجیے کہ یہ بھی 'ورچوئل' آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
ڈوبنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اصلی جنگ کی طرح بائیکاٹ کی گیم کھیلنے میں بھی 'کولیٹرل ڈیمیج' بہت ہوتا ہے۔ اس کا ذکر آپ نے اکثر افغانستان یا عراق کی جنگ میں سنا ہوگا، سادہ زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تیر نشانوں پر لگے تو ضرور لیکن صرف ان نشانوں پر ہی نہیں جن پر انہیں چلایا گیا تھا۔
بائیکاٹ کی گیم میں بہت باریکیاں ہیں۔ انہیں نظرانداز کرنا سمجھداری کی بات نہیں ہے۔ ملک کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کو بچانے کے لیے جن ایپس پر پابندی لگائی گئی ہے ان میں ٹک ٹاک اور 'شیئر اٹ' بھی شامل ہیں۔ ٹک ٹاک کی ہی مثال لیجیے۔ انڈیا میں تقریباً 20 کروڑ صارفین نے یہ ایپ اپنے سمارٹ فونز پر ڈاؤن لوڈ کر رکھی ہے اور ان میں سے 12 کروڑ ہر مہینے اسے استعمال کرتے ہیں۔

سننے میں لگتا ہے کہ پابندی کی وجہ سے کمپنی اگلے ہفتے تک دیوالیہ ہو جائے گی، لیکن گذشتہ برس کے آخری تین مہینوں میں انڈیا سے ٹک ٹاک نے صرف 25 کروڑ روپے کمائے تھے جبکہ 2019 میں امریکہ سے تقریباً ساڑھے چھ سو کروڑ اور داخلی چینی کسٹمرز سے ڈھائی ہزار کروڑ روپے۔
یہ بائیکاٹ کی گیم کچھ انڈیا پاکستان کے سفارتی گیمز کی ہی طرح ہے۔ آپ نے کل ہی جاسوسی کے الزام میں ہمارے دو سفارت کار نکالے، دیکھیے کیسا اتفاق ہے کہ آج ہم نے آپ کے دو سفارت کار جاسوسی کرتے ہوئے پکڑ لیے۔
چین کو جوابی کارروائی کرنے میں ذرا دقت ہوگی کیونکہ وہاں کوئی انڈین ایپ مقبول نہیں ہے۔ ٹوئٹر پر ایک چینی صارف ہو شی جن نے لکھا ہے کہ چینی عوام بھی انڈین مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہاں بائیکاٹ کرنے کے لیے انڈین سامان نظر کہاں آتا ہے؟ بھائی دشمنی کرنی ہے تو اس کے آداب بھی سیکھیے۔ یہ انڈیا کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اپنا سامان بائیکاٹ کرانے کے لیے چین کے بازاروں میں بھیجے، کم سے کم یہ انتظام تو آپ کو خود ہی کرنا ہوگا۔

اور ہاں کولیٹرل ڈیمیج کی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاک کے انڈیا میں تقریباً دو ہزار ملازمین ہیں، اور کمپنی نےآئندہ چند برسوں میں اپنے انڈیا آپریشنز پر ایک ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دونوں کا کیا ہوگا، اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ جواب میں چین کیا کارروائی کرے گا فی الحال کہنا مشکل ہے لیکن کچھ نہ کچھ کرے گا ضرور۔ افسوس کہ یہ ہی دنیا کا دستور ہے۔
آج کل چین سے امپورٹ کیے جانے والے سامان کی کسٹم کلیئرنس میں کافی دیر لگتی ہے اور اس لیے نہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پورا عملہ کام پر نہیں پہنچ رہا۔ سنا ہے کہ امپورٹڈ سامان کا ہر ڈبہ کھول کر اس کا معائنہ کیا جا رہا ہے جو عام حالات میں نہیں ہوتا۔ عام طور پر رینڈم چیکنگ ہوتی ہے۔ امپورٹرز شکایت کر رہے ہیں کہ اس تاخیر سے ان کے کاروبار متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومتیں اس طرح کی کارروائی کا باضابطہ اعلان نہیں کرتیں۔ آپ کو کوئی ایسا حکم نامہ نظر نہیں آئے گا جس میں کسی ایک ملک کا نام لے کر لکھا ہوا کہ وہاں سے امپورٹ کیے جانے والے سامان کو کلیئر کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے، جب فرصت ملے تو کردیں۔ اب کچھ اسی طرح کی شکایت انڈین ایکسپورٹرز بھی کر رہے ہیں۔ چین میں بھی کسی نے اشارتاً کہا ہوگا کہ یار خود ہی فیصلہ کرلیں کہ کون سا کنسائنمنٹ کلیئر کرنا زیادہ ضروری ہے۔
انڈیا میں چینی سامان کے بائیکاٹ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ حکومت نے بظاہر ای کامرس کے پلیٹ فارمز سے کہا ہے کہ وہ جو بھی سامان بیچیں، صارفین کو صاف طور پر بتائیں کہ وہ کس ملک میں بنایا گیا تھا لیکن مثال کے طور پر ژاؤمی کے جو فون انڈیا میں بنتے ہیں لیکن جن میں استعمال ہونے والے کچھ پرزے چین سے آتے ہیں اور کچھ یہیں بنائے جاتے ہیں، وہ فون میڈ ان انڈیا ہیں یا میڈ ان چائنہ؟ اور انہیں بائیکاٹ کرنے سے کس کا نقصان زیادہ ہوگا؟ یہ حساب کون لگائے گا کہ قوم پرستی کے جوش میں جو فون آپ نے نہیں خریدا وہ چینی تھا بھی یا نہیں؟ اور چینی ہو بھی تو کیا، بیچنے والا تو لوکل ہی ہے اور وہ سامان امپورٹ کرچکا ہے۔
