بیالیس سالہ محمد شاہد ان درجن بھر سے زیادہ افراد میں شامل تھے جن کو گذشتہ چند دنوں میں حکام نے دھوکہ دہی کے الزام میں حراست میں لیا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جعلی دستاویزات نے 16 کروڑ 80 لاکھ کی آبادی کے ملک میں کورونا وائرس کی پہلے ہی ابتر صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے اور کلینکس کے جاری کردہ سرٹیفیکیٹس کے مستند ہونے کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔
ریپڈ ایکشن بٹالین کے ترجمان کرنل عاشق بااللہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’محمد شاہد کو سرحد کے قریب دریا کے کنارے سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ انڈیا فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے برقع پہن رکھا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 'اس کے ہسپتال نے 10 ہزار پانچ سو کورونا وائرس کے ٹیسٹ کیے جن میں سے چار ہزار دو سو صحیح جبکہ باقی چھ ہزار تین سو کی رپورٹس بغیر ٹیسٹ کیے دی گئیں۔‘
محمد شاہد پر سرٹیفیکیٹس اور کورونا وائرس کے علاج کے لیے معاوضہ لینے کا بھی الزام لگایا گیا ہے، انہوں نے حکومت کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دارالحکومت ڈھاکہ میں ان کے ہسپتال مفت علاج فراہم کریں گے۔
پولیس نے ڈھاکہ میں ایک معروف ڈاکٹر اور ان کے شوہر کو بھی گرفتار کیا ہے، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی لیبارٹری سے کورونا وائرس کے ہزاروں جعلی سرٹفیکیٹس جاری کیے تھے۔
تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے او کے یو پی کے شاکر الاسلام کہتے ہیں کہ یہ مبینہ فراڈ ان تارکین وطن کو متاثر کرسکتا ہے جو بیرون ملک جانے کے خواہاں ہیں اور جن کی ترسیلات زر بنگلہ دیشی معیشت کے لیے اہم ہے۔
اٹلی نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے روکنے کے لیے گذشتہ ہفتے بنگلہ دیش سے روم جانے والی پروازوں کو معطل کیا تھا۔
شاکر الاسلام کے مطابق کہ جن بنگلہ دیشی شہریوں کے کورونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آئے تھے ان کے پاس کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے منفی نتائج کے رپورٹس تھے۔
’ حکومت کو چاہیے کہ بیرون ملک جاب مارکیٹ کی خاطر مقامی سطح پر کورونا وائرس کے ٹیسٹس کے معیار کو یقینی بنائے۔‘
مرکزی بینک کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ برس 12 ملین بنگلہ دیشی تارکین وطن نے 19 بلین ڈالر ملک بھیجے۔
بنگلہ دیش میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد ایک لاکھ 93 ہزار سے زیادہ ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار چار سو 57 ہے لیکن طبی ماہرین کے مطابق کہ ممکنہ طور پر کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد اس سے زیادہ ہے کیونکہ ملک میں کورونا کے ٹیسٹس کم ہو رہے ہیں۔
کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے باوجود بنگلہ دیش میں معاشی سرگرمیاں مئی کے آخر میں لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد شروع ہوگئی تھیں۔