تین چار دوستوں نے آپس میں بات کی اور کہا کہ سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کے ساتھ باہر نکل کر بھی احتجاج کرنا چاہیے (فوٹو:ٹوئٹر)
یہ ایک طویل، مشکل اور صبر آزما دن تھا۔ اس دوران غصے، غم اور مایوسی کی ملی جلی کیفیت رہی۔
دن ڈیڑھ بجے ایک فون کال آئی۔ کسی بچے کی آواز سنائی دی: ’انکل، میں مطیع اللہ جان کا بیٹا بول رہا ہوں۔ پاپا کی گاڑی دو گھنٹے سے امی کے سکول کے باہر کھڑی ہے اور وہ غائب ہیں، ان سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ انہوں نے ہدایت کی تھی کہ ایسی کسی صورت میں آپ کو فون کر کے آگاہ کیا جائے۔ آپ میری امی کو فون کر لیں۔‘
دھچکہ لگا مگر اپنے اعصاب کو کنٹرول کرتے ہوئے دوستوں کے واٹس ایپ گروپ میں یہ پیغام پوسٹ کیا۔
دو منٹ بعد مطیع اللہ جان کی اہلیہ کا فون آیا۔ بھابی نے وہی باتیں دہرائیں تو ان سے پوچھا کہ سکول میں فون پھینکے جانے اور واپس لیے جانے کی وضاحت کر دیں، سمجھ نہیں آئی۔
انہوں نے بتایا کہ سکول کے اندر کسی نے فون پھینکا تھا اور اس کےبعد پولیس وردی والے کسی بندے نے دروازے میں آ کر خادمہ سے واپس لے لیا۔ بھابی کو تسلی دی اور بتایا کہ ان کے پاس پہنچ رہا ہوں۔
دس منٹ بعد اسلام آباد کے ملیوڈی چوک پہنچا تو راستے خاردار تاریں لگا کر بند تھے۔ آگے لال مسجد ہے اور وہاں موجود پولیس اہلکاروں کا موقف تھا کہ پیدل بھی نہیں جا سکتے۔ ’یہاں جن کے گھر ہیں ان کو بھی اس راستے سے گزرنے کی اجازت نہیں۔ پچھلی گلیوں سے چلے جائیں۔‘
اسی دوران سینیئر صحافی عمر چیمہ واٹس ایپ گروپ میں میرا پیغام پڑھ کر میلوڈی پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے دوبارہ فون کر کے پوچھا کہ راستہ سمجھ نہیں آ رہا کیونکہ آگے سڑک بند ہے۔ گلیوں سے واپس نکل کر ان کو ساتھ لیا اور سیکٹر جی سکس ون کے سکول پہنچا جہاں ایک کمرے میں مطیع اللہ جان کی اہلیہ اور ان کے بھائی شاہد عباسی ایڈووکیٹ موجود تھے۔
ان کو تسلی دی اور پھر وہاں موجود دوست صحافیوں کی مدد سے سی سی ٹی وی کی ریکارڈنگ دیکھنے کے کوشش شروع کی۔ اس دوران اسلام آباد پولیس کا اہلکار موٹر سائیکل پر پہنچا۔ مطیع اللہ جان کی اہلیہ کا بیان ریکارڈ کرنا شروع کیا۔
مطیع اللہ جان کا ایک فون ان کی اہلیہ کے پاس تھا جس پر دنیا بھر سے ان کے دوستوں، خیر خواہوں اور جاننے والوں کی کالز آ رہی تھیں۔ انہوں نے کچھ دیر کے لیے میرے حوالے کیا کہ بات کر لیں۔
میرے فون اور واٹس ایپ پر میسجز اور کالز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پہلے سے شروع تھا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نیوز رومز سے پیغامات آ رہے تھے۔ سب کو سننا اور جواب دینا ممکن نہ تھا۔
ایک گھنٹے بعد ایک ایکسپرٹ کی مدد سے سی سی ٹی وی فوٹیج تک رسائی مل گئی۔ اس دوران مقامی تھانے آبپارہ کے پولیس اہلکار اور ایس ایچ او بھی پہنچ گئے۔ مطیع اللہ جان کے بھائی نے انگریزی میں ایک ابتدائی بیان تحریر کر کے دے دیا تاکہ مقدمہ درج کیا جا سکے۔
اس دوران سوشل میڈیا پر شور اٹھ چکا تھا۔ قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ خبر نشر/ شائع کر چکے تھے۔
ساڑھے چار بجے مطیع اللہ جان کے بھائی شاہد عباسی ایڈووکیٹ ہائیکورٹ میں حبس بے جا/ اغوا کی رٹ پٹیشن دائر کرنے چلے گئے۔ اس دوران لاہور سے عاصمہ جہانگیر کی لا فرم کی طرف سے فون کالز آ رہی تھیں کہ ان کے وکلا کل صبح اسلام آباد آ کر درخواست دائر کرنا چاہتے ہیں۔
تین چار دوستوں نے آپس میں بات کی اور کہا کہ سوشل میڈیا پر آواز اٹھانے کے ساتھ باہر نکل کر بھی احتجاج کرنا چاہیے۔ سپر مارکیٹ سے پلے کارڈ لیے اور نیشنل پریس کلب کے سامنے پہنچ گئے۔
کچھ دیر بعد حامد میر، اعزاز سید اور عبدالقیوم صدیقی سمیت دیگر صحافی دوست بھی آ گئے۔
بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کے فوٹو گرافر پہنچے اور چند تصاویر بنا لیں۔ مغرب کے بعد اعزاز سید کے ساتھ بہارہ کہو مطیع اللہ جان کے گھر پہنچے۔ ان کے بھائی اور بیٹے سے ملے۔
نمازِعشا کے بعد واپسی کی راہ لی۔ گھر کے قریب پہنچا تو ایک فون کال کے ذریعے ان کی فیملی کے فرد نے اطلاع دی کہ مطیع اللہ جان کے حوالے سے کچھ معلوم ہوا ہے، آپ فلاں جگہ پہنچیں۔ اعزاز سید کو فون کیا اور ان کی گاڑی میں پشاور موٹروے پر نکلے۔ انٹرچینج سے باہر اترے اور کوہاٹ روڈ پر فتح جھنگ کے قریب ایک جگہ ٹرک ہوٹل پر رکے۔
مطیع اللہ جان کے بھائی آگے چلے گئے، جس جگہ کا بتایا گیا تھا وہاں مطیع اللہ جان سڑک کنارے موجود تھے۔ پندرہ منٹ بعد ان کو لے کر گاڑی میں واپس آئے۔ مطیع اللہ جان نے گاڑی سے باہر نکلتے ہی روایتی اور پرجوش انداز میں کہا ’آؤ ڈیئر، کیسے ہو۔‘
رات کے سوا گیارہ بجے کا وقت تھا، اب ان کو کیا بتاتا کہ ’سب خیر خیریت ہے۔‘