انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش (یو پی) ان دنوں امن و امان کی خراب صورتحال کے سبب سرخیوں میں ہے۔ ریاست میں پہلے بھی صحافیوں کے خلاف کاروائیاں ہوتی رہی ہیں، لیکن دہلی سے ملحق یو پی کے معروف شہرغازی آباد میں ایک صحافی کو اس کی بیٹیوں کے سامنے گولی مار دی گئی، اور دونوں بیٹیاں خون سے لت پت باپ کے پاس بیٹھی روتی رہیں۔
اس واقعے نے ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی بگڑتی صورت حال کا چہرہ واضح کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
وکاس دوبے پولیس مقابلے میں ہلاک،’کچھ سمجھ نہیں آیا‘Node ID: 491351
-
ہمیں تو پیدل ہی لے چلوNode ID: 492271
-
وزیر اعظم بننے کا نسخہNode ID: 493836
اس سے قبل 60 سے زیادہ جرائم کے واقعات میں ملوث مجرم وکاس دوبے کے ہاتھوں آٹھ پولیس والوں کے قتل اور پھر پولیس کے ہاتھوں ان کے اور ان کے نصف درجن ساتھیوں کے انکاؤنٹر نے پہلے ہی یوگی حکومت پر سوالیہ نشان لگا رکھا ہے اور اس کے متعلق جانچ کے لیے کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔
اب تک اترپردیش میں ہونے والے واقعات پر خاموش رہنے والی ریاست کی سابق وزیراعلیٰ اور بہوجن سماج پارٹی کی رہنما مایاوتی نے بدھ کو کہا ہے کہ ’کرائم کا وائرس‘ اتر پردیش میں زیادہ سرگرم ہے۔
متواتر تین ٹویٹس میں انھوں نے کہا کہ اتر پردیش میں جنگل راج جاری ہے۔ پہلے ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’پورے یوپی میں قتل اور خواتین کے غیر محفوظ ہونے جیسے ہر طرح کے سنگین جرائم جس طرح بڑھ رہے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ وہاں قانون کا نہیں بلکہ جنگل راج چل رہا ہے یعنی یو پی میں کورونا وائرس سے زیادہ مجرموں کا کرائم وائرس حاوی ہے۔‘
पूरे यूपी में हत्या व महिला असुरक्षा सहित जिस तरह से हर प्रकार के गंभीर अपराधों की बाढ़ लगातार जारी है उससे स्पष्ट है कि यूपी में कानून का नहीं बल्कि जंगलराज चल रहा है अर्थात् यूपी में कोरोना वायरस से ज्यादा अपराधियों का क्राइम वायरस हावी है। जनता त्रस्त है। सरकार इस ओर ध्यान दे।
— Mayawati (@Mayawati) July 22, 2020
اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ جرائم کا شکار بننے والوں کو وقت پر معاوضہ ادا کیا جائے جبکہ اپنے تیسرے ٹویٹ میں انھوں نے صحافی کی موت پر تعزیت کرتے ہوئے لکھا کہ ’ابھی حال ہی میں یو پی کے جنگل راج میں غازی آباد میں اپنی بھانجی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے صحافی وکرم جوشی کو گولی مار کر زخمی کر دیا گیا جن کی آج موت ہو گئی۔‘
خیال رہے کہ 35 سالہ صحافی وکرم جوشی پر پیر کی شب حملہ کیا گیا تھا اور ان کے سر میں گولی لگی تھی۔ ان کی بدھ کے روز موت ہو گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب انھوں نے پولیس میں شکایت درج کی کہ چند لوگ ان کی بھانجی کو پریشان کر رہے ہیں۔ پولیس نے اس معاملے میں کئی لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
کانگریس کے سینیئر رہنما رندیپ سنگھ سورجے والا نے کہا کہ جوشی کے بہیمانہ قتل نے اترپردیش میں 'غنڈہ راج' کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے صحافیوں کے ساتھ وہاں ہونے والے متعدد واقعات کا ذکر کیا۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب دہلی سے ملحق غازی آباد میں اس طرح کے حالات ہیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی سربراہی والی حکومت میں کس طرح غنڈہ راج اور جنگل راج چل رہا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'کیا بی جے پی کی حکومت والی ریاست میں صحافی ہونا گناہ ہے؟ کیا صحافی بھی گینگسٹر ہیں؟ کیا پولیس وکرم جوشی جیسے صحافیوں کی آواز بھی نہیں سنے گی؟ کیا صحافی دن دیہاڑے گینگسٹر کی طرح مار ڈالے جائیں گے؟ اتر پردیش میں حالات قابل رحم ہیں۔'
اس سے قبل کانگریس رہنما راہل گاندھی نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے جہاں مرنے والے صحافی کے اہل خانہ سے تعزیت کی تھی وہیں یہ بھی کہا کہ 'وعدہ رام راج کا تھا لیکن دیا غنڈہ راج۔'
अपनी भांजी के साथ छेड़छाड़ का विरोध करने पर पत्रकार विक्रम जोशी की हत्या कर दी गयी। शोकग्रस्त परिवार को मेरी सांत्वना।
वादा था राम राज का, दे दिया गुंडाराज।
— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) July 22, 2020