حاجیوں کے قافلے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے مکہ آرہے ہیں۔(فوٹو مجلہ سواح)
اسلامی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب سے حج مسلمانوں پر فرض کیا گیا ہے تب سے حاجیوں کے قافلے مختلف راستوں سے گزرتے ہوئے مکہ مکرمہ آرہے ہیں۔
ماضی قدیم میں حج شاہراہیں تعمیر کی گئیں ان کے اطراف کاروباری مراکز قائم ہوئے۔ حج شاہراہیں ایک عرصے تک مختلف اقوام وممالک کی ثقافتوں اور تجربوں کے تبادلےاور منتقلی کا ذریعہ بنی رہیں۔
حج شاہراہوں نے سماجی روایات اپنانے کا سلیقہ دیا۔ یہ شاہراہیں ایک طرح سے مسلم علاقوں کو جوڑنے والے پل کا درجہ رکھتی تھیں۔ یہ صدیوں آباد رہیں۔ ان سے سفر کرنے والوں کا دائرہ حج اور عمرہ تک محدود نہیں رہا بلکہ مسافر سال بھر کسی نہ کسی غرض اور کسی نہ کسی ہدف کے تحت ان سے سفر کرتے رہتے تھے۔
حج شاہراہ ایک نہیں کئی تھیں۔ مسلم سلاطین اور خلفا حج شاہراہوں میں دلچسپی لیتے تھے۔ اس کا ثبوت امیر حج کے عہدے سے ملتا ہے۔ امیر حج عازمین کی نگہداشت شاہراہوں پر مسافر خانوں کے قیام اور مختلف منزلوں کے درمیان فاصلوں کی نشاندہی کیا کرتا تھا۔
عمر بن خطاب کے عہد خلافت (13-23 ھ) مطابق 634-644 ء میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان راستے پر خصوصی توجہ دی گئی۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں منزلیں اور آرام گاہیں تعمیر کرائیں تاکہ حاجی اور مسافر سفر کے دوران وہاں قیام کرسکیں۔
اسلام کی آمدسے لگ بھگ 40 صدی پہلے سے حج جاری وساری ہے۔ عازمین حج نے سفرِ حج کے لیے جو راستے اختیار کیے وہ اپنی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔
حج شاہراہوں پر قصر،قلعے،مسافرخانے، کنویں اور حوض بنائے گئے۔مساجد،شہر،قصبے اور بازار بسائے گئے۔
حج شاہراہوں کا ذکر تاریخ نویسوں نے اپنی تصانیف میں کیا ہے جن میں ناصر خسرو،ابواسحاق الحربی،ابن حوقل علی یعقوبی،یاقوت الحموی، الخوارزمی، ابن خرداز بہ،المسعودی،البیرونی،ابن جبیر،البکری،ابن بطوطہ،ادریسی، الحمدانی، عبدالغنی النابلسی اور ابن فضلان قابل ذکر ہیں۔
حج شاہراہوں نے مفسرین، محدثین،فقہا،ادب کے مشاہیر،شعرا،تاجروں اور معماروں کوعلوم و فنون کے تبادلے اور تعارف کا زریں موقع بخشا۔ ہجرتوں کا سامان پیداکیا۔روایات کو جنم دیا۔مذہبی،ثقافتی، سماجی،اقتصادی اور عمرانی مفادات کا سلسلہ قائم کیا اورتاریخی واقعات کو جنم دیا۔
حج شاہراہوں کے ذریعے، کتابوں مصنوعات اور دولت کی منتقلی عمل میں آئی۔مسلم اقوام کی عادات و روایات، افکار و خیالات، ثقافتوں اورمہارتوں کا تبادلہ عمل میں آیا۔
ایسے اسلامی معاشرے تشکیل ہوئے جو اپنی ہمدمی و ہمسازی کےلیے نام پیدا کرگئے۔ جغرافیائی فاصلوں،لہجوں،نسلوں اور زبانوں کے اختلاف کے باوجود قربت کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے۔
خلفائے راشدین نے حج شاہراہوں پر توجہ دی۔ اس کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ اسلامی تاریخ میں امیرالحج کا باقاعدہ ایک منصب ہوا کرتا تھا جو حاجیوں کی نگہداشت پر مامور ہوتا۔خلفا وسلاطین نے حج شاہراہوں پراسٹیشن قائم کرائے، ان کے درمیان فاصلے متعین کئے۔
حضرت عمر بن خطاب کے زمانے (23-13ھ644-634ئ ) میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے راستے پر خاص توجہ دی گئی۔ انہوں نے مدینہ منورہ میں مسافرخانے بنوائے تاکہ حاجی اور راہگیر وہاں قیام کرسکیں۔
تاریخ کی کتابوں میں 7 بڑی حج شاہراہوں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ اسلامی ریاست کے مختلف گوشوں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تک بنائی گئی تھیں ان میں :
البصرہ حج شاہراہ
مصری حج شاہراہ
شامی حج شاہراہ
یمنی حج شاہراہ
عمانی حج شاہراہ
اور بحرین یمامہ کے نام مشہور و معروف ہیں ۔
آئندہ قسط میں درب زبیدہ کے بارے میں تفصیلی مضمون شائع کیا جائے گا۔
انجینرز نے ''درب زبیدہ'' کے اتار چڑھاؤ اور کہاں کہاں سے کس طرح گزر رہی ہے اس کا سروے کیا ہے۔نقشے تیار کرلئے ہیں۔سعوی محکمہ قومی ورثہ نے کئی تاریخی مقامات کی اصلاح ومرمت بھی کرادی ہے۔