’بیوروکریٹس کا خدمت کرانا‘ ماضی میں بھی گفتگو کا موضوع بنتا رہا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
عوامی مناصب پر موجود افراد کی رعونت یا غیرصحت مندانہ رویوں سے متعلق شکایات بھی غالباً اسی وقت سے موجود ہیں جب سے یہ ذمہ داریاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ البتہ جدید تیز تر ابلاغ کے موجودہ دور میں یہ شکایات اتنی نمایاں ہو جاتی ہیں کہ چاہیں بھی تو نظرانداز نہیں کی جا سکتیں۔
پاکستان میں بیوروکریسی یا عوامی زبان میں دفتری بابو بھی وہ شعبہ ہے جس کے کاموں اور رویوں سے متعلق شکایات سامنے آتیں اور موضوع گفتگو بنتی رہتی ہیں۔
گذشتہ دنوں ملک کا جنوبی صوبہ سندھ، بالخصوص کراچی حالیہ بارشوں کے دوران جگہ جگہ پانی ٹھہرنے اور روزمرہ زندگی کو درپیش مشکلات کی وجہ سے مسلسل خبروں کا حصہ بنا۔ حکومت و انتظامیہ نے اس موقع پر اپنے اقدامات سے دوسروں کو باخبر رکھنے کے لیے اپنی سرگرمیوں کے ابلاغ پر خصوصی توجہ دی۔
اسی دوران سندھ میں سیلابی پانے سے متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے والے ایک بیوروکریٹ اور ان کے اوپر چھتری پکڑ کر کھڑے پولیس اہلکار کی تصاویر ٹائم لائنز پر نمایاں ہوئیں، تو بارش و سیلاب سے نمٹنے میں حکومتی ناکامی کے تاثر کو مزید پختہ کر گئیں۔
ٹیلی ویژن پروگرام کی میزبانی سے یوٹیوبر بننے والے پاکستانی صحافی و تجزیہ کار سید طلعت حسین نے تصاویر شیئر کیں تو لکھا کہ ’شکار پور سندھ۔ 'سرکار' کی طاقت دیکھیں۔ سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کیا بھی تو اس نخرے کے ساتھ کہ چھتری پولیس والے نے تھامی ہوئی ہے۔ بیوروکریسی اس ملک میں ان قوتوں میں سے ہے جو اپنے فرض کو قوم کے سر پر احسان کر کے نبھاتی ہے‘۔
ایک الگ ٹویٹ میں انہوں نے مختصر ویڈیو بھی شیئر کی جس میں سرکاری افسر چھتری تلے کھڑے ہیں جب کہ ان کے ساتھ موجود عملہ اور دیگر افراد ساون کے حبس اور گرمی میں کسی سائے کے بغیر نمایاں ہیں۔
جنید احمد ڈاہر نے ’چھتری کے سائے تلے‘ والی ’ذہنیت‘ سے متعلق ایک اور بیوروکریٹ کی تصویر شیئر کی تو ساتھ ہی سابق امریکی اور موجودہ روسی صدور کی تصاویر بھی اپنی ٹویٹ کا حصہ بنائیں۔ اپنے تبصرے میں انہوں نے تینوں تصاویر کا موازنہ بھی کیا۔
پاکستانی بیوروکریسی میں ’خدمت کرنے’ کے بجائے ’خدمت کرانے‘ کا رجحان کیسے پیدا ہوا کے پہلو پر گفتگو ہوئی تو کچھ صارفین نے سول سروسز اکیڈمی میں کی جانے والی ذہن سازی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
البتہ کچھ صارف افسری کے نرالے رنگ ڈھنگ کے پس پردہ دیگر وجوہات کا ذکر بھی کرتے رہے۔ ایس ایم نامی ہینڈل نے لکھا کہ یقین کریں ان کو یہ عادتیں دفتر میں چپڑاسی، نائب قاصد اور چوکیدار ڈالتے ہیں۔ صاحب کے آتے ہی وہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولیں، دفتر کا دروازہ کھولیں اور کسی طرح صاحب کے قریب ہو کر ان سے کوئی کام نکلوا لیں۔ چپڑاسی اور نائب قاصد کی اسامیاں دفتروں سے ختم کر دیں‘۔
چوہدری نوید گفتگو کا حصہ بنے تو انہوں نے ’چھتری پکڑانے والی ذہنیت‘ پر تنقید کو درست قرار دیا۔ اپنے تبصرے میں انہوں نے لکھا کہ ’میرا ذاتی خیال ہے جو افسران ضلعوں اور تحصیلوں کی ذمہ داریاں اُٹھا سکتے ہیں وہ یقیناً ایک معصوم سی کمزور جان 'چھتری' بھی اُٹھا ہی لیں گے‘۔ اپنی تجویز میں انہوں نے لکھا کہ ’چھتری اٹھانے سے عزت بچتی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے‘۔
سوشل میڈیا پر تنقید ہوتی دیکھ کر بیشتر سول سروس افسران چپ سادھے رہے البتہ کچھ مسلسل تبصرے دیکھ کر خاموشی برقرار نہ رکھ سکے۔ اپنی پروفائل پر خود کو اسسٹنٹ کمشنر بتانے والی سیدہ میمونہ نے چھتری کا تذکرہ کیا تو مختلف نکات کی صورت اپنا موقف پیش کیا۔
انہوں نے لکھا کہ ’کوئی افسر سٹاف کو اپنی چھتری اٹھانے کا نہیں کہتا (کم از کم میں ایسے کسی معاملے سے واقف نہیں)۔ سٹاف خود ہی احتراماً ایسا کر لیتا ہے‘۔ اپنے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ کئی بار میرے عملے نے مجھے لیپ ٹاپ یا فائلز اٹھانے کی پیش کش کی لیکن میں نے نرمی سے انہیں منع کر دیا‘۔
اعجاز علی خان رویوں اور نتائج سے متعلق شکوے کے ساتھ سامنے آئے تو لکھا کہ ’مجبوریوں میں جکڑی حکومت، مصلحتوں میں پھنسی اپوزیشن، مستیوں کی عادی بیوروکریسی عوام کو کیا دے سکتی ہے؟‘
موضوع کوئی بھی ہو، موقع کیسا ہی کیوں نہ ہو، عام مشاہدہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ہتھے چڑھنے کے بعد اس میں مزاح کا تڑکہ ضرور لگتا ہے۔ ’چھتریوں والی ذہنیت‘ بھی ٹائم لائنز پر مزاح کے ہتھے چڑھی تو صارفین نے یہ تبصرے شروع کر دیے کہ اگر وہ ’بابو‘ یا ’میڈم‘ ہوں تو کیا کریں گے۔
سول سروس سے چھتریوں والے معاملے پر سامنے آنے والی ایک اور آواز کنول بتول نقوی کی تھی۔ انہوں نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے دوسروں کو مخاطب کر کے لکھا کہ برساتیوں کا انتظام کر لیں، یہ اچھے بھی لگتے ہیں۔ ان دنوں چھتریاں بہت گڑبڑ کر رہی ہیں‘ اس جملے پر انہیں مشورہ ملا کہ ’آپ مت کہنا اپنے ریڈر کو کہ چھتری پکڑو، اپنی چھتری خود پکڑو‘۔
جواب میں کنول بتول نقوی کا کہنا تھا کہ ’میں چھتری اور باقی چیزیں خود سنبھال لیتی بس اپنا بچہ پکڑا دیتی ہوں سپورٹ سٹاف کو۔۔۔ میرا سٹاف میری مرضی‘۔
کامران گجر ’بچہ پکڑا دینے‘ والی تجویز پر تبصرے کے ساتھ سامنے آئے تو کہا کہ ’میں اگر آپ کا سپورٹ سٹاف ہوتا تو میں کچھ بھی نہ پکڑتا، کہتا آپ کا بچہ آپ کی مرضی، میری چھتری میری مرضی۔‘
سول سروس افسران کے رویوں اور طرز عمل پر جاری گفتگو اصلاح، مزاح اور شکوؤں کے رنگ لیے خاصی دیر جاری رہی۔ البتہ اس کے بیشتر شرکا متفق دکھائی دیے کہ ’احساس برتری‘ ہو یا ’احساس کمتری‘ ہر دو سے پیچھا چھڑا لینا ہی بہتر ہے، جب کہ کچھ ایسے بھی تھے جن کا خیال تھا کہ ’عوامی مناصب پر موجود لوگوں کو بالادستی کی خواہش‘ پر قابو رکھنا چاہیے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں