سعودی ہنر مند خاتون نے قدیم حجاز کے عظیم الشان ورثے کو زندہ کرنے اور رکھنے کے لیے اپنی نوعیت کا نیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مکہ کے فن تعمیر اور تہذیب و تمدن سے تعلق رکھنے والے امور کو مجسم شکل میں پیش کرنے کے لیے اپنے گھر کو مکہ کے قدیم بازاروں کے مجسموں کے کارخانے میں تبدیل کیا ہے۔
العربیہ نیٹ کے مطابق خلود ابو العلا نے بتایا کہ 'میں ہنر پیشہ خاتون ہوں وسائل محدود ہیں۔ جذبہ یہ ہے کہ ماضی کو زندہ جیتی جاگتی صورت میں نئی نسل کے سامنے رکھوں۔ اس حوالے سے اپنے ہنر اور تجربے سے کام لے رہی ہوں۔'
خلود کا کہنا ہے کہ 'میں ان گنی چنی خواتین میں سے ایک ہوں جو حجاز کے قدیم محلوں کی جیتی جاگتی تصویر مجسموں کی شکل میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔'
سعودی خاتون کا کہنا ہے کہ 'میں اپنی یادداشت میں حجازی محلوں کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی محفوظ کیے ہوئے ہوں- مجھے معلوم ہے کہ ان محلوں کے بازار کیسے ہوتے تھے۔ ان میں کس محلے میں کس ہنر اور پیشے سے منسلک افراد بسے ہوئے تھے- محلوں کے نام اور گھروں کے قدیم فرنیچر کی شکل و صورت میرے لاشعور تک میں بسی ہوئی ہے۔
خلود نے مزید بتایا کہ انہوں نے اپنے اس تجربے اور اس ہنر کا پہلی بار اظہار پندرہ برس قبل الجنادریہ محلے میں کیا تھا۔ بہت سارے لوگوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا تب سے وہ اپنے ہنر کو چمکانے اور مجسم سازی میں استعمال کی جانے والی اشیا کو بہتر سے بہتر شکل دینے میں لگی ہوئی ہیں۔ جتنا وقت گزرتا جاتا ہے اتنا ہی کام میں حسن اورعمدگی پیدا ہوتی چلی گئی ہے۔
خلود ابو العلا نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے ’المدعی‘ اور ’الجودریہ‘ مارکیٹ کے نام سے نیا کام پیش کیا ہے- اس کا تصور مسجد الحرام کے پہلو میں واقع حقیقی بازار سے لیا ہے۔ جہاں المدعی اورالجودریہ بازار میں بہت ساری دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ مکہ میں آباد خاندانوں سے منسوب تھیں مثلاً سلائی کے لوازمات کے لیے البغدادی کی دکانیں، مرزا سٹیشنری کی دکانیں، العمدہ چوہدری کی بیٹھک اور کھلونوں کے لیے غندورہ نامی دکانیں ہوتی تھیں- میں نے بازار کی ان تمام دکانوں کو مجسم شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
خلود اس سے پہلے حجاز کے رسم و رواج مجسم شکل میں پیش کرچکی ہیں۔ دلہنوں کی مہندی کی رسم، حجازی خواتین کے ملبوسات بھی مجسم شکل میں پیش کیے ہیں۔
خلود کے مطابق وہ اب ایک بڑا تجارتی مرکز کھولنے کے لیے کوشاں ہیں جہاں اپنی دستی مصنوعات، حج اور عمرہ زائرین میں متعارف کرانے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میری تیار کردہ ہر تخلیق پر ’صنع فی مکہ‘ (مکہ ساختہ) لکھا ہے۔