پاکستان میں عرب کھانوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ فوٹو اردو نیوز
کسی بھی ملک میں کھانوں کی اپنی روایات ہوتی ہیں اور یہ کسی بھی قوم کی ثقافت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں۔
پاکستانی کھانوں کی نہ صرف ملک کے اندر بہت زیادہ ورائٹی پائی جاتی ہے بلکہ ان کے بے پناہ لذیذ ذائقوں کی دنیا بھر میں مقبولیت ہے۔ اس ملک کے ہر خطے کے کھانوں کی اپنی ایک لذت ہے۔
لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کے اندر غیر ملکی کھانوں کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی، چینی، اور افغانی کھانے تو اب پاکستانی ثقافت کا باقاعدہ حصہ بن گئے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی دنیا کے کئی علاقوں کے کھانے پاکستان میں اب باآسانی دستیاب ہیں اور لوگ ان کو شوق سے کھاتے ہیں۔
یہاں ایرانی، ترکی اور لبنانی کھانوں کے ریستوران تو پہلے سے موجود تھے لیکن اب دیگرعرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے کھانے بھی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں گزشتہ ایک سال سے مشرق وسطیٰ اور عربی کھانوں کے ریستورانوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس کی ایک وجہ ان پکوانوں کے منفرد ذائقے تو ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو پیش کرنے کے روایتی انداز کو بھی پسند کیا جا رہا ہے۔
عبد الرؤف پاکستان میں عربی کھانوں کے ایک ریستوران میں مینجر کے طور پر کام کر رہے ہیں اور گزشتہ 15 سال سے اس شعبے سے منسلک ہیں۔
عبدالرؤف بتاتے ہیں کہ ایک سال میں کم و بیش دس چھوٹے بڑے عربی یا مشرق وسطیٰ کے کھانوں کے ریستوران کھلے ہیں۔
جی ٹی روڈ پر قائم بیت العرب مندی کے نام سے عربی ریستوران میں کام کرنے والے عبدالرؤف کہتے ہیں کہ ’فروری میں ہم نے اپنے ریستوران کا افتتاح کیا اور ایک ماہ بعد ہی کورونا وائرس کی وجہ سے کاروبار بند ہو گئے، لیکن اس ایک ماہ کے دوران لوگوں نے اتنا پسند کیا کہ کورونا کے دنوں میں بھی ہمارا کام اتنا متاثر نہیں ہوا اور لوگوں کی ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے ہوم ڈیلوری سروس کی۔‘
عبد الرؤف پاکستان میں عربی کھانے کی مقبولیت کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پاکستانی کھانے زیادہ مصالحہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اب لوگ چاہتے ہیں کہ باہر جب بھی کھانے کے لیے جائیں تو کم مصالحہ والی اور ذائقہ دار چیزیں کھائیں۔‘
اسسٹنٹ مینجر محمد عمران کے مطابق پاکستانی لوگوں میں عربی بار بی کیو، گرلڈ گوشت، چاول اور میٹھا مقبول ہو رہا ہے۔ جو کھانے لوگ زیادہ کھانا پسند کر رہے ہیں ان میں مٹن مندی، مٹن مکس پلیٹر، لیمب مندی، مٹن ود رائس اور قنافہ شامل ہیں۔
بیت العرب مندی کے چیف شیف محمد رفاقت جو سعودی عرب کے مختلف ریستورانوں میں 15 سال تک بطور باورچی کام کر تے رہے ہیں، اب پاکستانیوں کو اپنے ذائقے سے روشناس کروانا چاہتے ہیں۔
محمد رفاقت کہتے ہیں کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جو ذائقہ سعودی کھانوں میں پایا جاتا ہے وہی ذائقہ وہ پاکستان میں لوگوں کو فراہم کریں اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔
’اکثر ہمارے گاہک ایسے ہیں جو کہ بیرون ملک کام کرتے ہیں اور پاکستان میں انہیں سعودی کھانے کھانے ہوں تو وہ ہمارے پاس ضرور آتے ہیں اور کہتے ہیں پاکستان میں انہیں وہی ماحول اور وہی ذائقہ ملتا ہے جو بیرون ملک ملتا ہے۔‘
اسسٹنٹ مینجر محمد عمران کہتے ہیں کہ وہ اس ریستوران کے ذریعے سعودی ثقافت کو پاکستان میں متعارف کروانے کی کوشش کرہے ہیں اور کافی حد تک اس میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔
'ہم نے کوشش کی ہے کہ ذائقے کے ساتھ ساتھ وہی ماحول مہیا کریں جیسا کہ سعودی عرب میں مجلس کا رواج دیکھا جاتا ہے، اسی طرح کا ماحول ہم نے متعارف کروایا جو کہ کافی مقبول ہو رہا ہے۔‘