سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کو بریفنگ دیتے ہوئے آئی جی موٹر وے پولیس کلیم امام نے کہا ہے کہ جس جگہ پر خاتون سے زیادتی کا واقعہ ہوا وہ لاہور پولیس کی زیر نگرانی ہے اور سکیورٹی کی ذمہ داری سی سی پی او لاہور کی ہے۔
بدھ کو سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔
اجلاس کے آغاز میں وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر سے اجلاس میں بیٹھنے کی درخواست کی جس پر سینیٹر عائشہ رضا اور سینیٹر قراۃ العین نے کہا کہ وفاقی وزیر ایوان میں تشریف لائیں کمیٹی میں وہ نہیں
مزید پڑھیں
-
موٹروے زیادتی کیس: ملزم سے تفتیش جاریNode ID: 504776
-
’زیادتی کرنے والوں کو چوک پر لٹکایا جائے‘Node ID: 505026
-
’ملزم کی شناخت پریڈ جلد کرائی جائے‘Node ID: 505176
بیٹھ سکتے۔ اس کے بعد سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی درخواست پر فیصل واوڈا اجلاس میں شرکت کیے بغیر واپس چلے گئے۔
کمیٹی نے آئی جی موٹر وے پولیس، چیئرمین این ایچ اے، آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور کو خاتون سے زیادتی کے واقعے پر بریفنگ کے لیے طلب کیا تھا۔
سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی غیر حاضری پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں آئندہ اجلاس کے لیے سمن جاری کر دیا۔
چیئرمین کمیٹی مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ’یہ کمیٹی پہلی بار سمن جاری کرنے کے اختیار کو استعمال کر رہی ہے اور سمن جاری ہونا سی سی پی او کے لیے باعث شرم ہونا چاہیے۔ ان کی عدم موجودگی اور پارلیمان کی بے توقیری کی کمیٹی مذمت کرتی ہے اور وہ یہ مت بھولیں کہ ہمارے پاس یہ اختیار بھی موجود ہیں کہ ہم ان کا زر ضمانت مقرر کرنے کے احکامات جاری کر سکتے ہیں۔‘

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ سی سی پی او کا کام ڈائیلاگ بازی رہ گیا ہے۔ ’انہوں نے تمام خواتین کا مذاق اڑایا اور کہتے ہیں کہ میرے پیچھے قانون نہیں بلکہ حکومت ہے۔‘
کمیٹی کے ارکان نے سی سی پی او کو معطل کرنے کے احکامات جاری کرنے کی درخواست کی۔
عثمان کاکڑ نے کہا کہ سی سی پی او ’بدمعاشوں کے سہولت کار‘ بنے ہوئے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو پکڑنے اور مقدمے درج کرنے میں ماہر ہیں۔
ڈی آئی جی انوسٹی گیشن شہزادہ سلطان نے کمیٹی کو بتایا کہ سی سی پی او کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست پر سماعت تھی اس لیے ان کی جگہ وہ آئے ہیں۔
کمیٹی نے ڈی آئی جی کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے آئندہ اجلاس کے لیے سی سی پی او کے سمن جاری کرنے کی ہدایت کر دی۔

آئی جی موٹروے پولیس کلیم امام نے کمیٹی کو بتایا کہ رات دو بج کر ایک منٹ پرخاتون کی کال موصول ہوئی اور اس کے فوراً بعد ان کی کال ایف ڈبلیو او کو ٹرانسفر کر دی گئی جہاں سے ان کو متعلقہ افسر کا نمبر بھی دیا گیا۔
کمیٹی کی رکن عائشہ رضا فاروق نے سوال اٹھایا کہ جب موٹروے پولیس کو کال موصول ہوئی تو ان کے علم میں تھا کہ اس علاقے میں میں نہ پٹرول ہے اور نہ ہی پولیس کی پٹرولنگ۔ ’تو پھر انہوں نے فوراً گاڑی ان کی مدد کے لیے کیوں نہیں بھیجی؟‘
کلیم امام نے بتایا کہ خاتون کی جانب سے ایمرجنسی کال کے بجائے ہیلپ کے لیے کال موصول ہوئی تھی اور ان کی متعلقہ نمائندے سے بات کروا دی گئی تھی۔
سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ مسئلہ موٹر وے پولیس سے ہوتا ہوا این ایچ اے کے پاس جاتا ہے این ایچ اے سے ایف ڈبلیو او کے پاس جاتا ہے اور پھر ان سے کون پوچھے ’وہاں تو لائن کٹ جاتی ہے۔‘
سینیٹر پرویز رشید نے سوال اٹھایا کہ جس جگہ واردات ہوئی کیا یہ پہلا واقعہ تھا؟
