نواز شریف اور آصف زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس سے خطاب کیا۔ فوٹو ٹوئٹڑ
آل پارٹیز کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیے کا اعلان کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ آئین اور قانون پر یقین رکھنے والی جماعتوں نے ’آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ کے نام سے نیا اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے زیر انتظام ہونے والے اے پی سے بعد اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمنٰ 26 نکاتی مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔
اعلامیے کے مطابق ’اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں نئے سرے سے شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارنہ انتخابات کرانے جائیں۔‘
’آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام پر یقین رکھنے والی قومی سیاسی جماعتوں کا اتحاد 'پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' کے نام سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ اتحادی ڈھانچہ عوام اور عوام اور غریب دشمن حکموت ےس نجات لے لیے ملک گیر احتجاجی تحریک کو منظم اور مربوط انداز میں چلائے گا اور رہنمائی کرے گا۔
اعلامیے کے مطابق ’اجلاس ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کی مذموم کوششوں کی مذمت کرتا ہے۔ ‘ ’اجلاس اعادہ کرتا ہے 1973 کاآئین، موجودہ این سی ایف ایوارڈ قومی اتفاق رائےکا مظہر ہیں۔‘
اعلامیے کے مطابق اجلاس حکومت کی افغان پالیسی کی مکمل ناکامی پرتشویش کااظہار کرتاہے۔
اعلامیے میں میڈیا پر پابندیوں کی بھی مذمت کی گئی۔ ’اجلاس میڈیا پر تاریخ کی بد ترین پابندیوں، دباؤ اور حکومتی ہتھکنڈوں کی شدیدمذمت کرتا ہے۔‘
’اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے فی الفور ایسی انتخابی اصلاحات کی جائیں جس میں مسلح افواج اور ایجنسیز کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔‘
’سلیکٹڈ حکومت کی ناکام پالیسیز کے نتیجے میں تباہ حال معیشت پاکستان کے دفاع، ایٹمی صلاحیت اور ملک کی باوقار خود مختاری کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔‘
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ا’جلاس اعادہ کرتا ہے کہ 1973 کا آئین، اٹھارویں ترمیم اور موجودہ این ایف سی ایوارڈ قومی اتفاق رائے کا مظہر ہیں، ان پر حملوں کا بھر پور مقابلہ کیا جائے گا اور پوری قوت سے صوبائی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے گا اور ان پر کوئی سمجھوتی نہیں کیا جائے گا۔‘
’اجلاس نے قرار دیا کہ موجودہ سلیکٹڈ حکومت کو مضموعی استحکام اُس سٹیبلشمنٹ نے بخشا ہے جس نے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے اسے عوام پر مشلط کیا۔ اجلاس نے سٹیبلشمنٹ کے سیاست میں بڑھتے ہوئے عمل دخل پر گہری تشویوش کا اظہار کیا اور اسے ملک کی سلامتی اور قوامی اداروں کے لیے خطرہ قرار دیا۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ سٹیبلشمنٹ سیاست میں ہر کسی قسم کی مداخلت فوری طور پر بند کرے۔ سٹیبلشمنٹ کے مام ادارے آئین کے تحت لیے گئے حلف اور اس کی متعین کردہ حدود کی پابندی و پاسداری کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت سے باز رہیں۔‘
اجلاس میڈیا پر تاریخ کی بد ترین پابندیاں لگانے، دباؤ اور سینسرشپ کے حکومتی ہتھکنڈوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتا ہے کہ تمام گرفتار صحافیوں، میڈیا پرسنز کو رہا کیا جائے اور ان کے خلاف غداری اور درج دیگر بے بنیاد مقدمات خارج کیے جائیں۔ اجلاس نے عزم ظاہر کیا کہ شہریوں اور میڈیا کی آزادیوں کو چھیننے کا کوئی حربہ کامیان نہیں ہونے دیں گے۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اجلاس ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے مذموم ارادے کو رد کرتا ہے اور وفاقی پارلیمانی جمہوریت کو پاکستان کے تحفظ کا ضامن سمجھتا ہے۔ اجلاس دو ٹوک انداز میں واضح کرتا ہے کہ پارلیمان کی بالادستی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی اور نہ ہی اس پر کوئی سمجھوتہ کیا جائے گا۔‘
سربراہ جے یو آئی نے اپوزیشن جماعتوں کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اکتوبر اور نومبر میں پہلے مرحلے میں ملک کے صوبائی دارالحکومتوں (کراچی، کوئٹہ، پشاور اور لاہور) سیمیت دیگر بڑے شہروں میں مشترکہ جلسے کیے جائیں گے۔
’دسمبر میں دوسرے مرحلے میں صوبائی دارالحکومتوں میں بڑی عوامی ریلیاں اور مظاہرے ہوں گے جب کہ جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ کیا جائے گا۔‘
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ سلیکٹڈ حکومت کی تبدیلی کے لیے اپوزیشن پارلیمان کے اندر اور باہر تمام جمہوری ، سیاسی اور آئینی آپشنز استعمال کرے گی جس میں عدم اعتماد کی تحاریک اور مناسب وقت پر اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کا آپشن شامل ہے۔
اس سے قبل آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ اگر پاکستان میں ووٹ کو عزت نہ ملی اور قانون کی پاسداری نہ کی گئی تو سارا معاشی نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔
اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا تھا ’ہر طرح کی مصلحت چھوڑ کر بے باک فیصلے کرنا ہوں گے، آج نہیں کریں گے تو پھر کب کریں گے، اس کانفرنس کو کامیاب بنانا ہوگا ورنہ قوم کو مایوسی ہوگی۔
اس سے قبل سابق صدر آصف زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا کہ ’میڈیا پر اس طرح کی پابندیاں اس سے پہلے نہیں لگائی گئیں جو حکومت کی کمزوری کا ثبوت ہے۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم پاکستان کے آئین کے گرد ایک دیوار ہے تاکہ کوئی باہر یا اندر سے پاکستان کو کمزور نہ کر سکے، ترمیم کے ذریعے سب سے زیادہ حصہ پنجاب کو ملتا ہے اور ہم پنجاب کے بھی ساتھ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ہم حکومت گرانے نہیں آئے ہیں، بلکہ حکومت کو نکال کر جمہوریت بحال کر کہ رہیں گے۔ یہ کوئی جمہوریت نہیں اس طرح ملک نہیں چلتے۔‘
ملک کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا: نواز شریف
سابق وزیراعظم نواز شریف نے خطاب میں کہا کہ پاکستان کو درپیش مسائل کی ایک ہی وجہ ہے کہ ملک کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا۔ جمہوریت کی بنیاد عوامی رائے پر مبنی ہے، لیکن جب ووٹ کی عزت کو پامال کر دیا جاتا ہے تو سارا عمل جعلی ہو کر رہ جاتا ہے۔
’جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے، جمہوریت پر ضرب لگے، ووٹ کی عزت پامال ہو تو سارا جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انتخابی عمل سے پہلے کہہ دیا جاتا ہے کہ کس کو جتوانا ہے، اور کس کو ہروانا ہے تو واضح ہوتا ہے کہ کس طرح سے عوامی مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’فوجی آمر کو پہلی مرتبہ آئین شکنی کی وجہ سے عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دو مرتبہ آئین توڑنے والے کو عدالتوں نے بریت کا سرٹیفیکیٹ دے دیا، عدالت ہی سرے سے غیر آئینی قرار دے دی گئی۔ لیکن پاکستان میں یہ انہونی بات نہیں کہ فوجی آمر کے خلاف کوئی کارروائی ہو۔‘
نواز شریف نے کہا کہ اس کے برعکس جو سیاست دان عوامی ووٹوں کی وجہ سے وزیراعظم منتخب ہوئے ان میں سے کوئی پھانسی چڑھا، کوئی قتل ہوا، کوئی ہائی جیکر قرار دیا گیا، کسی کو جلا وطن کر دیا گیا، کوئی عمر بھر کے لیے نا اہل ہو گیا اور کوئی اپنی ماؤں بہنوں کے ساتھ جھوٹے مقدمات کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں یا تو مارشل لا ہوتا ہے یا پھر منتخب حکومت کے ساتھ ایک متوازی نظام چلتا ہے، ریاست کے اندر ریاست قائم کر دی جاتی ہے۔ لیکن اب معاملہ اس سے آگے چلا گیا ہے، اب ریاست سے بالاتر ایک اور ریاست ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حالیہ حالات کی وجہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عوامی رائے کے خلاف ناہل حکمرانوں کو ملک پر مسلط کیا، انتخابات ہائی جیک کر کہ اقتدار چند لوگوں کو منتقل کر دینا بہت بڑی بد دیانتی اور آئین شکنی کی ہے، عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا سنگین جرم ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ ’ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے بلکہ ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’2018 کے انتخابات میں گھنٹوں آر ٹی ایس کیوں بند رکھا گیا، گنتی کے دوران پولنگ ایجنٹس کو کیوں باہر نکال دیا گیا۔ سابق چیف الیکشن کمیشنر، سیکریٹری کمیشن اور دھاندلی کرنے والوں کو جواب دینا ہوگا۔‘
جمہوریت نہ ہو تو معاشرے کو ہر طرف سے کمزور کیا جاتا ہے: بلاول
کانفرنس کے میزبان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ’جب جمہوریت نہیں ہوتی تو معاشرے کو ہر طرف سے کمزور کیا جاتا ہے اور ہماری کوشش تھی کہ بجٹ سے پہلے اے پی سی کروائیں۔‘
کثیرالجماعتی کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا دو سال میں ہمارے معاشرے اور معیشت کو بہت نقصان پہنچا اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ جب ملک میں لوگوں کو احتجاج کرنے، میڈیا پر اپنا بیانیہ پیش کرنے اور متنخب نمائندوں کو اسمبلی میں کچھ بولنے کی اجازت نہ ہو تو وہ معاشرہ کیسے ترقی کرسکتا ہے۔
پی پی پی کے شریک چیئرمین نے کہا کہ 'یہ جو قوتیں اور اسٹیبشلمنٹ ہیں جنہوں نے عوام سے جمہوریت چھینی ہے، کٹھ پتلی نظام مسلط کیا ہے انہیں سمجھنا پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں ’ہمیں ان کے سامنے مطالبہ پیش کرنا پڑے گا کہ ہمیں، اس ملک کو اور اس ملک کے عوام کو آزادی دیں۔‘
ملک میں جمہوریت صرف نام کی ہے: شہباز شریف
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں جمہوریت صرف نام کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں سلیکٹڈ حکومت آئی، ان انتخابات میں آر ٹی ایس کیسے بند ہوا؟ اس کی تحقیقات کے لیے ان ہاؤس کمیٹی بھی بنائی گئی لیکن کچھ نہیں ہوا۔
شہباز شریف نے کہا کہ 2014 میں منتخب حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا جبکہ کورونا سے قبل ہی پاکستان کی معیشت کو ضرب لگ چکی تھی، عمران خان نے کہا تھا کہ مرجائیں گے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں مختلف ادوار میں حادثے ہوئے اور منتخب حکومت کو ڈی ریل کیا گیا، یہ کہنا غلط نہ ہو ہوگا کہ ملک میں جمہوریت صرف نام کی ہے۔