سعو دی عرب میں تجریدی آرٹ کی فنکارہ نے قالین پر سعودی خاتون کی تصویر اور اس کی امنگوں کی جھلکیاں نقش کرکے آرٹ کے مقامی اور بین الاقوامی حلقوں میں اپنی پہچان بنائی ہے۔
العربیہ نیٹ سے فاطمہ نمر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’دراصل آرٹ کا تصور مشرقی سعودی عرب کے قطیف علاقے سے لیا ہے جہاں میں نے سمندر اور ریت کے ماحول میں اپنا بچپن گزارا۔’
فاطمہ النمر کو اپنے اطراف کی دنیا دریافت کرنے کا شوق بچپن سے ہی جنون کی حد تک تھا۔ قدرتی مناظر اور فطری حسن سے دلی لگاؤ ورثے میں پایا تھا۔ یہی تعلق تجریدی آرٹ میں ڈھل گیا۔ والدین نے حوصلہ افزائی کی۔ 1999 میں آرٹ کا سفر شروع کیا اور سعودی عرب کی متعدد نمائشوں میں حصہ لیا۔
فاطمہ النمر نے بتایا کہ تجریدی آرٹ کا شوق اصولوں کے مطابق کرتی ہوں۔ سونے اور زیورات کی ڈیزائننگ پر کام کیا ہے۔ تجریدی آرٹ کو طرز حیات کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔ ہمیشہ میری کوشش ہوتی ہے کہ سعودی خاتون اور وطن عزیز کے لیے اس کی خدمات کو اجاگر کروں۔ اپنے علاقے کی حقیقی شخصیتوں کو اپنے فن کے ذریعے مجسم شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میری آخری نمائش ’ریحانہ‘ کے نام سے ہوئی تھی۔ اس نمائش کو ایک طرح سے خواتین کی مختلف حیثیتوں کو اجاگر کرنے والے روشندانوں کا نام دیا جاسکتا ہے۔ آرٹ کی نمائشیں معاشرے کے رسم و رواج اور طور طریقے بیان کرنے کا عملی وسیلہ ہیں۔
فاطمہ النمر نے بتایا کہ خواتین کی تصاویر بناتے وقت ہزاروں برس پرانے ثقافتی نقوش اور ملبوسات کو نمایاں کرتی ہوں۔ اپنے علاقے کے تاریخی مقامات جن پر ہمیں فخر ہے اپنے فن پاروں میں دکھاتی ہوں۔ لندن، اٹلی اور مصر میں نمائشیں ہوچکی ہیں آجکل ریاض میں نمائش ہورہی ہے۔
فاطمہ النمر نے کہا کہ ہر فنکار کا کوئی نہ کوئی نصب العین اور مشن ہوتا ہے۔ فن وطن عزیز کی آواز ہے۔ یہ بات ہمارے لیے باعث فخر ہے کہ ہم سعودی ہیں۔ میری ہر نمائش میں اس کا اظہار اپنے طور پر ہوتا ہے۔
فاطمہ النمر نے سعودی عرب کے 90 ویں قومی دن کی مناسبت سے ایک فن پارہ تیار کیا ہے جو سعودی خاتون سے متعلق ہے۔ اس کی اقدار اور روایات کو فن پارے میں نمایاں کیا گیا ہے۔ سعودی خاتون دانشور، ڈاکٹر اور ماں کا کردار بہترین شکل میں ادا کررہی ہے۔ اسے قالین اور کھجور کے نقوش کے ذریعے نمایاں کیا ہے۔
خود کو اپ ڈیٹ رکھیں، واٹس ایپ گروپ جوائن کریں