Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گاڑی میں کون سے ٹائر ڈلوانے چاہییں؟ 

ہر گھر، خاندان یا حلقہ احباب میں ایک شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جسے گاڑیوں کے حوالے سے تمام تر معلومات ہوتی ہیں، پھر چاہے نئی گاڑی لینی ہو یا سیکنڈ ہینڈ، یا پرانی گاڑی میں نئے ٹائر ڈلوانے ہوں، دیگر تمام افراد اسی سے مشورہ کرتے ہیں۔
اگر آپ بھی اپنی گاڑی کے ٹائر تبدیل کرنے کے بارے سوچ رہے ہیں، تو یہ تحریر پڑھ لیجیے مزید مشورے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ 
گاڑیوں کے ٹائر مختلف ممالک میں بنتے ہی اور ان کی الگ الگ خاصیتیں ہوتی ہیں، اور اچھی بات یہ کہ دنیا کے جس بھی ملک میں ٹائر بنیں وہ پاکستان میں ضرور دستیاب ہوتے ہیں۔ چاہے نئے ہوں یا استعمال شدہ، برآمد ہوئے ہوں یا سمگل شدہ، پاکستان میں دنیا کی ہر کمپنی اور برانڈ کا ٹائر دستیاب ہے۔ 

 

یہی وجہ ہے کہ جب گاڑی کے ٹائر تبدیل کرنے کی باری آتی ہے تو فیصلہ کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کمپنی، کس ساخت، اور کس ہیئت کے ٹائر ڈلوائے جائیں۔ 
دنیا بھر کی ٹائر بنانے والی کمپنیاں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے ٹائر کئی کئی ہزار بلکہ لاکھ کلومیٹر تک بھی چل سکتے ہیں۔
پاکستان میں ٹائر ڈیلرز بھی آپ کو ٹائر بیچتے وقت یہی بتائیں گے، لیکن جو بات وہ آپ کو نہیں بتاتے وہ یہ کہ یہ دعویٰ پاکستانی سڑکوں کے حالات کو مدنظر رکھ کر نہیں کیا جاتا، اور یہ تقریباً ناممکن ہے کہ پاکستانی سڑکوں پر ٹائر اپنی طبعی عمر پوری کر پائیں۔ اس سے پہلے ہی اس میں کٹ لگ جاتے ہیں، یا بے پناہ پنکچر ہوجاتے ہیں کہ ٹائر بدلنا پڑتا ہے۔ 

پاکستانی اور درآمد شدہ ٹائروں میں فرق کیوں؟ 

پاکستان میں بننے والے ٹائر کو درآمد شدہ ٹائروں سے کمتر گردانا جاتا ہے، مگر دراصل ایسا اس کی کوالٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ ساخت اور افادیت کے باعث کیا جاتا ہے۔
کراچی کی ٹائر مارکیٹ میں اس کاروبار سے 40 سال سے منسلک آدم حسین کہتے ہیں کہ پاکستانی کمپنی میں بنے ٹائر شہر کی سڑکوں کے حساب سے بالکل مناسب ہوتے ہیں۔

’ہر ٹائر پر اس کے بننے کا مہینہ اور سال درج ہوتا ہے‘ (فوٹو: اردو نیوز)

’ٹائروں کی ساخت ان کی حد رفتار کا تعین کرتی ہے۔ جو ٹائر پاکستان میں بنتے ہیں وہ ’ٹی ریٹڈ‘ ہوتے جن کی حد رفتار 100+ کلومیٹرفی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس درآمد شدہ ٹائر بہتر ساخت کے ہوتے ہیں ’ایچ ریٹڈ‘ یا ’زیڈ ریٹڈ‘ ہوتے ہیں، جو بالترتیب 150+ اور 200+ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے لیے بنے ہوتے ہیں۔‘ 
لہٰذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ پاکستانی ٹائر معیاری نہیں ہوتے۔ سو اگر آپ کی روزمرہ ضرورت دورانِ شہر سفر کی ہے تو آپ بے فکر ہو کر پاکستانی ٹائر ڈلوا سکتے ہیں۔
ہاں البتہ اگر آپ مختلف شہروں کے مابین ہائی ویز اور موٹرویز پر سفر کرتے ہیں تو اپنی گاڑی کے مطابق برآمد شدہ ٹائر ڈلوا سکتے ہیں۔ پاکستانی ٹائروں کے مقابلے میں درآمد شدہ ٹائروں کی قیمت اوسطاً ڈیڑھ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ 

کابلی ٹائر کیوں خطرناک ہیں؟ 

کابلی کوئی باضابطہ اصطلاح نہیں بلکہ سمگل شدہ اشیا کو حرف عام میں کابلی کہہ دیا جاتا ہے، اور یہی ضابطہ ٹائروں پر بھی لاگو ہے۔  

بیرون ملک سے ٹائر سمگل کیے جاتے ہیں اور انہیں پالش کرکے درآمد شدہ کہہ کر بیچا جاتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

بیرون ملک سے ٹائر سمگل کیے جاتے ہیں اور انہیں پالش کرکے درآمد شدہ کہہ کر بیچا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں نفع کی شرح کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔  
آدم حسین کا کہنا ہے کہ ‘ایسے ٹائر گاڑی اور انسان دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’سمگل کرتے ہوئے ٹائروں کو تور مروڑ کر ایک دوسرے میں سمویا جاتا ہے اور ایک کی جگہ 4 ٹائر گھسا کر لائے جاتے ہیں۔‘
’موڑنے سے ٹائر کے اندر کی تاریں ٹوٹ جاتی ہیں اور ایسے ٹائر کے برسٹ ہونے، کٹنے اور ٹیڑھا ہو جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ’یہی ٹائر عموماً حادثات کا سبب بنتے جس کے نتیجے میں نہ صرف گاڑی بلکہ قیمتی جانوں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ سمگل شدہ ٹائر ڈلوانے سے تو بہتر ہے کہ پرانے ٹائروں پر ہی گزارا کیا جائے۔‘

ماہرین کے مطابق ٹیوب والے ٹائر کے برسٹ ہونے کا خدشہ رہتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

ٹائر کی شیلف لائف کتنی ہوتی ہے؟ 

آدم حسین نے بتایا کہ ٹائر کی شیلف لائف 4 سال تک ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر ٹائر پر اس کے بننے کا مہینہ اور سال درج ہوتا ہے، اور کم دن پہلے بننے والا ٹائر ڈلوانا بہتر رہتا ہے بہ نسبت مہینوں سے شیلف میں رکھے ہوئے ٹائر کے۔ 

پنکچر لگانے کا کونسا طریقہ ٹائر کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے؟ 

موٹے سوئے سے لگایا گیا پنکچر اور ٹائر کو گرم کر کے لگایا گیا پنکچر دونوں ہی نقصان دہ ہیں۔ آدم حسین کے مطابق ٹائر میں ٹھنڈا پنکچر لگنا چاہیے ٹِکی والا۔ گرم کرنے یا سوا گُھسانے سے ٹائر کی اندرونی بناوٹ متاثر ہوتی ہے۔
’عام طور پر پنکچر والے ٹھنڈی ٹِکی والا پنکچر نہیں لگاتے، اور پوری مشقت کرکے پکا کر پنکچر بناتے ہیں، تاکہ محنت لگے اور گاہک اچھے پیسے دے۔‘ 

ٹیوب لیس ٹائر پرانا ہونے پر ٹیوب ڈلوانا خطرناک کیوں؟ 

پاکستان میں یہ رویہ عام ہے کہ جب ٹیوب لیس ٹائر پرانے ہوجاتے ہیں اور ان میں کافی پنکچر لگ جاتے ہیں تو اس میں ٹیوب ڈلوا کر اسے استعمال کیا جانے لگتا ہے۔
آدم حسین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا خطرناک ہے کیوں کہ ٹیوب والے ٹائر کے برسٹ ہونے کا ہمیشہ خدشہ رہتا ہے، جبکہ ٹیوب لیس ٹائر پنکچر ہو کے کٹ جانے پر برسٹ نہیں کرتا اور اس کی خرابی کا ڈرائیور کو بروقت احساس ہو جاتا ہے۔ 

شیئر: