مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میں
کہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کدو
الفاظ و آہنگ بتا رہے ہیں کہ شعرعلامہ اقبال کا ہے۔ شعرمیں سالک و صوفی کے معاملات زیربحث ہیں، ہم اس معاملے میں نہیں پڑتے، حسب سابق لفظوں کی گرہ کشائی کرتے ہیں۔ شعر میں ہماری دلچسپی لفظ سبوچہ، غنیمت، خانقاہ اور کدو سے ہے۔
’سَبُو‘ فارسی میں بڑے کوزے کو کہتے ہیں، جو آب نوشی سے زیادہ مے نوشی سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ اس کے اردو مترادفات میں ’گھڑا، مٹکا اور پیالہ‘ شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
برس گانٹھ سے ’سال گرہ‘ تکNode ID: 451401
-
’انور‘ کو ’مہ‘ سے کیا نسبت ہے؟Node ID: 460936
-
جدہ، دادی اماں کا شہرNode ID: 514966
فارسی میں کسی اسم کی تصغیر بنانی ہو تو اُس اسم کے بعد ’چہ‘ کا اضافہ کردیتے ہیں۔ جیسا کتاب سے کتابچہ، درسے دریچہ اور باغ سے باغچہ وغیرہ۔ ایسے ہی ’سبو‘ سے ’سبوچہ‘ ہے جس کا مطلب چھوٹا کوزہ یا پیالہ ہے۔
عام طور’باغچہ‘ کو ’باغیچہ‘ لکھا جاتا ہے جو درست نہیں کہ ’باغیچہ‘ لکھیں تو یہ ’باغ‘ کے بجائے ’باغی‘ کی تصغیر بنتی ہے یوں اس کا مطلب ’باغی بچہ‘ یا ’چھوٹا‘ باغی ہوجاتے ہیں۔
اس سلسلے کا ایک لفظ ’غالیچہ‘ ہے، جسے’قالیچہ‘ بھی لکھتے ہیں۔ یہ ’قالین‘ کا اسمِ تصغیر ہے جس کے معنی’چھوٹا قالین‘ہیں۔ اسے انگریزی میں ’rug‘ کہہ سکتے ہیں۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ’غالیچہ‘ اور ’قالیچہ‘ میں کیا فرق ہے؟
اس فرق سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ فارسی میں ’ق‘ کا تلفظ ’غ‘ کیا جاتا ہے۔ مثلاً وہ ’آقا‘ کو’آغا‘ پکارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ’قالین‘ کو’غالین‘ کہتے اور اس کی تصغیر’غالیچہ‘ کرتے ہیں۔
اردو نے ’آغا‘ اور’آقا‘ دونوں لفظوں کو تو قبول کرلیا مگر’قالیچہ‘ اور’غالیچہ‘ میں سے اول الذکر لفظ کو رد کردیا۔ نتیجتاً عام آدمی ’کنفیوژ‘ ہوجاتا ہے کہ جب ’کتاب‘ سے کتابچہ ہے تو ’قالین‘ سے ’غالیچہ‘ کیسے ہوگیا؟
اب اس’غالیچہ‘ کی رعایت سے اردو کے معروف ادیب جگن ناتھ آزاد کے والد تلوک چند کی نظم ’نورجہاں کا مزار‘ سے ایک شعر ملاحظہ کریں:
تجھ سی ملکہ کے لیے بارہ دری ہے
غالیچہ سرِفرش ہے کوئی نہ دری ہے
کسی بھی نو کی پیداوار یا ایجاد کا کسی شخص، شہر یا ملک سے منسوب ہوکر مشہور ہوجانا سامنے کی بات ہے جیسے فلسطینی علاقے’عسقلان‘ کی پیاز یورپ میں سکیلین (Scallion) ہوئی۔ مغل فرماروا اکبرشاہ ثانی کے بیٹے میرزاسلیم کی نسبت سے’سلیم شاہی جوتا‘ چل پڑا اور جرمن شہر ’کولون/Cologne‘ کے تعلق سے ’Eau de Cologne‘ کی خوشبو جہاں بھر میں پھیل گئی۔
![](/sites/default/files/pictures/November/36506/2020/vanessa-serpas-epunuoll8es-unsplash.jpg)
ایسی ہی کہانی ’قالین‘ کی بھی ہے۔ قالین کی نسبت کاکیشیا (قفقاز) کے شہر’قلیقلا‘ کی طرف ہے۔ اس اونی دبیزفرش کواول ’قلیقلا‘ کی نسبت سے ’فرش قالی‘ کہا گیا۔ پھر جس طرح سنگ سے سنگین، رنگ سے رنگین، غم سے غمگین ہے ایسے ہی ’قالی‘ بھی ’قالین‘ ہوگیا۔
اب آجائیں ’غنیمت‘ پر کہ جس کے بارے میں پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’غنیمت‘ کو ’غنم‘ سے نسبت ہے۔ عربی میں بھیڑ بکریوں کو ’غنم‘ کہتے ہیں۔ سادگی سے بھر پور زندگی میں صحرا نشینوں کی کل دولت یہی ’غنم‘ تھے، جسے فتح کی صورت میں دشمن لوٹ لے جاتا تھا۔ بعد میں اسے ’غنم‘ کی نسبت سے ’غنیم‘ کا تصور پیدا ہوا جو دشمن کو کہتے ہیں۔ اب غنیم کی رعایت سے احمد فراز کا ایک شعرملاحظہ کریں:
غنیم سے بھی عداوت میں حد نہیں مانگی
کہ ہار مان لی لیکن مدد نہیں مانگی
اب لفظ ’خانقاہ‘ کی بات ہوجائے۔’خانقاہ‘ فارسی لفظ ’خانگاہ‘ کی معرب صورت ہے۔ ایک رائے کہ مطابق ’خان گاہ‘ اصلاً ’خانہ گاہ‘ تھا جو جُزی تبدیلی کے بعد ’خان گاہ‘ ہوا اور عربی میں پہنچ کر ’خانقاہ‘ ہوگیا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہوا مگر اس رائے کو دل قبول نہیں کرتا۔
![](/sites/default/files/pictures/November/36506/2020/siora-photography-lkt5-jcepuy-unsplash.jpg)