Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'لو جہاد' کیا اور انڈیا میں اس کا شور کیوں زیادہ ہے؟

انڈیا وسطی ریاست مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومت نے کہا وہ آئندہ اسمبلی کے اجلاس میں 'لو جہاد' کے خلاف سخت قانون لائے گی۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق ریاست کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے منکل کے روز کہا کہ ریاستی حکومت 'لو جہاد' کے خلاف ایسے قانون لائے گی جس کی سزام پانچ سال کی سخت سزا ہو۔
انھوں نے ریاستی دارالحکومت بھوپال میں نامہ نگاروں سے کہا کہ 'ایک لفظ 'لو جہاد' گردش میں ہے۔ ہم لوگ اسمبلی میں مدھیہ پردیش مذہبی آزادی بل متعارف کرانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
'اس کے تحت جو بھی جبری تبدیلی مذہب کرانے یا پھر بہلا پھسلا کر دھوکے سے شادی کرے گا اسے پانچ سال قید کی سخت سزا دی جائے گی۔'
خیال رہے کہ اس طرح کا اعلان انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش پہلے ہی کر چکی ہے۔
دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ میں بھی یہ بات کہی گئی ہے جبکہ جنوبی ریاست کرناٹک کے وزیر اعلی بی ایس یدورپا نے چھ نومبر جمعے کو اس کا اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت اس کے متعلق قانون پر غور کر رہی ہے۔
اسی دن مدھیہ پردیش میں اجین انتخابی حلقے سے بی جے پی کے رکن پارلیمان نے کہا تھا کہ انھوں نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو اس بابت ایک قانون بنانے کے لیے خط لکھا ہے۔
یہ 'لو جہاد' کیا ہے؟
بی جے پی والے یا سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کا یہ برملا کہنا ہے کہ مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر ان سے شادی کر لیتے ہیں اور انھیں جبری مذہب تبدیل کراتے ہیں۔ 
اور اسی کو انھوں نے 'لو جہاد' کا نام دیا ہے۔ یعنی مسلمان نوجوان ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت یعنی جہاد سمجھ کر یہ کام کرتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر لڑکی مسلم ہو اور لڑکا ہندو ہو تو اس میں کسی قسم کی سازش نہیں ہے۔ چنانچہ گذشتہ برسوں میں جب سے بی جے پی کی مرکز میں حکومت ہوئی ہے۔
'لو جہاد' کا شور زیادہ سنائی دیتا ہے اور اس معاملے بہت سے جوڑے کے اذیت ناک مرحلے سے گزرنا بھی پڑا ہے۔
اس معاملے میں کیرالہ کی ایک لڑکی کا ایک مسلمان لڑکے سے عشق،  اسلام قبول کرنا اور پھر شادی پر معاملہ سپریم کورٹ تک گیا تھا۔ کیرالہ کی اکھیلا نے قبول اسلام کے بعد اپنا نام ہادیہ رکھا تھا اور انھوں نے شفین سے محبت کی شادی کی تھی۔

سنگھ پریوارکے مطابق مسلم لڑکے ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر ان سے شادی کر لیتے ہیں اور انھیں جبری مذہب تبدیل کراتے ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی 

بہرحال سپریم کورٹ میں معاملہ جانے کے بعد ہادیہ کی شادی کو  قانونی قرار دیا گیا لیکن ان کے واقعے کو 'لو جہاد' کی مثال بنا کر پیش کیا گیا۔
انڈیا میں اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں چنانچہ جب 'لو جہاد' سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنتا ہے تو لوگ بالی وڈ 'بادشاہ' شاہ رخ خان کو گوری سے شادی کرنے اور عامر خان اور سیف علی خان کو ہندو خواتین سے شادی کرنے کے لیے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
انڈیا میں پہلے ہی اونچی ذات اور نیچی ذات کے درمیان شادی تنازعے کا باعث تھی اور بین الا مذہب شادی اس میں ایک اضافہ ہی ہے۔

شیئر: