’جو میڈیا کے سامنے ہو رہا ہے اس سے کہیں زیادہ پس پردہ ہو رہا ہے۔‘ یہ بات کہی ہے محمد علی درانی نے، جو پی ٹی آئی کی اتحادی مسلم لیگ فنکنشل کے سیکرٹری جنرل ہیں اور تازہ تازہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کر کے لوٹے ہیں۔
ویسے تو سیاستدانوں کے درمیان ملاقاتیں معمول ہیں مگر اس ملاقات نے سیاسی ماحول میں ہلچل پیدا کی اور اس کی وجہ تھی اس کا مقصد، یعنی ٹریک ٹو مذاکرات۔ ٹریک ٹو بات چیت اس لیے اہم ہوتی ہے کہ یہ دو متحارب گروپوں کے درمیان بالواسطہ رابطہ ہوتا ہے جو آمنے سامنے یا براہ راست آپس میں بات نہ کرنا چاہتے ہوں۔
اس کو پاکستان کی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو متحارب گروپ سامنے ہیں یعنی حکومت اور پی ڈی ایم اور میدان بھی گرم ہے یعنی استعفے اور احتجاج۔
مزید پڑھیں
-
’مولانا کی اینڈ گیم کیا؟‘ ماریہ میمن کا کالمNode ID: 441501
-
کریں تو کریں کیا؟ ماریہ میمن کا کالمNode ID: 468111
-
’احتیاط لازم ہے‘Node ID: 514961
اب کچھ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ شہباز شریف کو محمد علی درانی کس کے نمائندے کے طور پر ملے۔ وہ قوت جو بھی ہے بہرحال ان کی جماعت کے سربراہ کے علاوہ ہے۔ دوسرا سوال یہ کہ کیا پی ٹی آئی کو اعتماد میں لیا گیا؟ کیا اس کا مقصد مذاکرات ہیں یا ن لیگ میں دراڑ ڈالنے کی ایک اور کوشش اور آخر میں یہ کہ ٹیبل پر کون سے ایشوز ہیں؟
یہ بات بہرحال طے ہے کہ باوجود فریقین کے رابطوں سے اعلانیہ انکار کے، رابطے بہرحال جاری ہیں۔ ٹریک ٹو کے ساتھ مسلم لیگ کے اندر سے نیشنل گورنمنٹ اور معیشت کے چارٹر کی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔

دوسری طرف گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا بھی غلغلہ جاری ہے۔ کیا یہ سرگرمیاں وقتی ہیں اور پی ڈی ایم کے احتجاج اور استعفوں کو تعطل دینے کے لیے کی جاری ہیں یا اس کے کوئی دیرپا اثرات بھی ہوں گے؟ اس کا جواب جاننے کے لیے فریقین کی پوزیشن کا جائزہ لینا ہوگا۔
شہباز شریف اور آصف زرداری اگرچہ طبعیت اور سیاست میں جدا لگتے ہیں مگر اس صورتحال میں ایک گروپ میں نظر آئیں گے۔ اس گروپ کا جھکاؤ مفاہمت کی طرف ہے اور خصوصاً اسٹیبلشمنٹ کی طرف ’جیو اور جینے دو‘ کی امیدیں لگائے رکھتا ہے۔ اسی لیے ٹریک ٹو کا آغاز شہباز شریف سے ہوا ہے اور کوئی بعید نہیں آصف زرداری اس میں آن بورڈ ہوں یا جلد ان سے بھی رابطہ ہو جائے۔ اس گروپ میں ن لیگ کی زیادہ سینیئر قیادت بھی شامل ہے جن کے ایشوز احتساب میں محدود رعایتیں اور اقتدار میں محدود شرکت ہے اور وہ ان پر ہی اکتفا کر لیں گے۔

مفاہمت گروپ کو دوہرا چیلنج ہے۔ ایک طرف عمران خان اور دوسری طرف جارح گروپ جس کو لیڈ کر رہی ہیں مریم نواز۔ مریم نواز اور نواز شریف خود ڈائیلاگ کے لیے تیار ہیں مگر ان کی ڈیمانڈ ہے کہ مذاکراتی میز پر دوسری طرف حقیقی قوتیں بیٹھیں اورایشوز میں شامل ہوں، اقتدار کی نئی بساط۔ محدود رعایتوں اور محدود شرکت کے لیے اب وہ بظاہر تیار نہیں یا ان کو زیادہ سے زیادہ اعتماد بڑھانے والے اقدامات کے طور پر لیں گے۔ اس لیے ٹریک ٹو میں بھی ابھی وہ شامل نہیں ہوں گے مگر حالیہ ماضی یہ بتاتا ہے کہ ان کی پوزیشن میں بھی لچک آ ہی جاتی ہے۔
عمران خان مفاہمت کو این آر او کا نام دیتے ہیں اور اس لیے اپوزیشن کے ساتھ کسی بھی ڈپلومیسی میں ’سپائلر‘ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے، کوئی بھی بات چیت ’سٹیٹس کو‘ کو تبدیل کرنے سے ہی شروع ہوگی ۔ چاہے وہ شہباز شریف کی محدود خواہشات ہوں یا مریم نواز کا نیا سیایسی منظر نامہ، ہر دو صورتوں میں عمران خان کا اختیار اور سیاست متاثر ہوں گے۔ اس لیے باوجود اس کے کہ پی ڈی ایم ابھی تک کوئی خاص سیاسی چیلنج نہیں بن سکی۔ عمران خان اور ان کی ٹیم روزانہ کی بنیاد پر سخت بیانات ضرور دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ان کا مخاطب عوام کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ بھی ہے۔ وہ آخری حد تک چاہیں گے کہ اپوزیشن اور خصوصاً ن لیگ کا ’بندوبست‘ کرپشن کے کیسز اور زبردستی سے ہی ہو۔ ان کے موقف میں لچک اس ہی وقت آئے گی جب بالکل اس کے سوا چارہ نہیں رہے گا۔
