Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہراسانی، نفرت اور جیل: پاکستان کے چند نئے یوٹیوبرز کی کہانیاں

ریاض چمکنی پاکستان کے ایک نوجوان یوٹیوبر ہیں جو صحافت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے یو ٹیوب چینل کے ذریعے لوگوں میں آگاہی پھیلانے اور ان کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
اب تک وہ پاکستانی لوگوں کے کئی بنیادی مسائل پر رپورٹنگ کر چکے ہیں اور بالخصوص اپنے آبائی علاقے کرم ایجنسی کے معاملات سامنے لے کر آئے ہیں۔
لیکن اپنا یوٹیوب چینل شروع کرتے ہی انہیں اس وقت سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے اپنے علاقے کے دو گروہوں کے مابین مسلح لڑائی اور اس کے متعلق پولیس کی مبینہ چشم پوشی پر رپورٹنگ کی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان پر مقدمات قائم کیے گئے اور ان کو 40 دن جیل میں گزارنا پڑے۔ وہ ضمانت پر باہر آئے اور اب بھی ان مقدمات کی تاریخیں بھگت رہے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرا مقصد قبائلی علاقہ جات اور یہاں کے لوگوں کے مسائل اپنے یو ٹیوب چینل پراجاگر کرنا ہے۔ جب دو گروہوں میں لڑائی ہوئی تو میں نے اس واقعے کے متعلق چھ سات ویڈیوز بنائیں جو وائرل ہو گئیں۔‘
ان کا کہنا ہے ’دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل سمیت 12 دفعات کے تحت مجھ پر مقدمات قائم کر دیے گیے۔ میرا کیس اب بھی انسداد دہشت گردی عدالت میں چل رہا ہے۔‘
پاکستان میں یو ٹیوب پر چینل بنانا اور اس سے پیسے کمانا نوجوانوں کے لیے اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ دوسرے ممالک میں۔ ملک میں یوٹیوب کے ضوابط، مقامی قوانین، سینسر شپ کی پالیسیوں، ٹیکنالوجی مسائل اور عوامی آگاہی سمیت متعدد مسائل ہیں جو اپنا چینل شروع کرنے والے نوجوانوں کو درپیش ہیں۔

نوجوانوں میں یوٹیوب پر اپنا چینل کھولنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

یوں تو صف اول کے صحافیوں، علما اور کھلاڑیوں سمیت متعدد شعبوں کے درجنوں افراد اپنے یو ٹیوب چینلز سے نہ صرف پیسے کما رہے ہیں بلکہ شہرت بھی حاصل کر رہے ہیں لیکن نوجوان یو ٹیوبرز جن کو کوئی نہیں جانتا اور وہ اپنے چینل کے ذریعے نام کمانا چاہتے ہیں ان کو ابتدا میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے نبرد آزما ہونا آسان نہیں ہوتا۔
ایسی ہی صورتحال کا سامنا حال ہی میں امریکہ سے گریجویشن مکمل کر کے آنے والی سکھر کی رہائشی سحر شفیق کو بھی ہے جنہوں نے اپنے ہمعصر نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے ایک منفرد موضوع ’بیرونی سکالرشپس کے حصول اور ان کی تیاری کے طریقہ کار‘ پر چینل بنایا۔
لیکن انہیں اپنے موضوع کے ناظرین حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا ہے اور ساتھ ہی تکنیکی سہولیات اور عوام میں آگہی کی کمی کا بھی۔

یوٹیوب چینل: پارٹ ٹائم جاب یا فل؟

سحر شفیق نے بتایا کہ ’ہماری سوسائٹی میں بد قسمتی سے، اگر آپ پروفیشنل یوٹیوبر بن جائیں تو یہ قابل قبول نہیں ہے، یہ آپ کی پارٹ ٹائم جاب ضرور ہو سکتی ہے، لیکن فل ٹائم جاب نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی بھی یو ٹیوبر (چینل) سٹارٹ کرتا ہے، اس کے پاس کیمرہ نہیں ہوتا، موجو سے ہی سٹارٹ کرنا پڑتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں اچھے آلات نہیں ملتے، رنگ لائٹ کا تصور آیا تو ہے، لیکن یہ فون کا وزن نہیں اٹھا سکتیں۔ یہاں اچھے آلات اور لائٹنگ ملنی چاہییں۔‘’
سحر شفیق کہتی ہیں کہ پاکستان میں لوگ ابھی تک خواتین کو گھورتے ہیں جس سے وہ ہراساں ہوتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی خاتون کیمرہ اٹھا کر عوام میں رپورٹنگ کرنے جائے تو لوگ اس کے بارے میں برا تاثر قائم کر لیتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ اگر آپ کوئی بہت زیادہ مشہور شخصیت نہیں ہیں تو آپ کو کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے پہلے یہ خیال کرنا پڑتا ہے کہ آپ کی بات عوام کی اکثریت کے نظریات کے خلاف نہ ہو۔‘

ریاض چمکنی اپنے یوٹیوب چینل پر علاقے کے مسائل اجاگر کرتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

نفرت اور منسوخی کا کلچر

 راولپنڈی کے حمزہ بھٹی جو گذشتہ کچھ سالوں سے اپنا یو ٹیوب چینل چلا رہے ہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان میں کام کرنے والے ایک یوٹیوبر کو کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے پہلے اچھی طرح اندازہ لگا لینا چاہیے کہ اس بارے میں رائے عامہ کیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’آپ کو پولیٹیکلی کریکٹ (سیاسی طور پر درست) ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر آپ اپنی طرف سے بات کر لیں گے، 20، 50 ہزار ایسے لوگ ہوں گے جو آپ سے اتفاق بھی کریں گے۔ لیکن بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جو پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) کو رپورٹ کرنا شروع کر دیں گے۔ آپ کی بات بہت سے لوگوں اور اداروں کو پسند نہیں آئے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے ہاں نفرت اور منسوخی کا کلچر بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے نئے یو ٹیوبرز حوصلہ ہار دیتے ہیں۔‘

یوٹیوبرز اپنے کام کے لیے جدید آلات استعمال کرتے ہیں (فوٹو: فری پک)

حمزہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نوجوان باقی دنیا اور پڑوسی ملکوں سے ویسے ہی چھ سال پیچھے ہیں کیونکہ اس دوران یوٹیوب پر پاکستان میں پابندی لگی رہی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں نہیں پتہ کہ کل کون سی ایپ پر پابندی لگ جائے کہ کوئی اس پر کسی اور ملک میں کوئی ایسی چیز بناتا ہے کہ وہ پوری کی پوری ایپ پر ہی پابندی لگ جائے۔ ہو سکتا ہے کہ پورے کے پورے سوشل میڈیا پر پابندی لگ جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو پاکستانی نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر مواقع فراہم کرنے کے لیے سہولیات فراہم کرنی چاہییں۔
حمزہ کے بقول ’ہمارے پاس سہولیات نہیں ہیں، ایمازون، پے پال وغیرہ، اگر امریکہ میں کسی کو آپ کا کام پسند ہے اور وہ آپ کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور آپ اسے کہتے ہو کہ آپ کے پاس پے پال نہیں ہے، تو کوئی کیوں آپ کے ساتھ کام کرے گا۔
 حال ہی میں حکومت پاکستان نے نئے سوشل میڈیا قوانین متعاراف کروائے ہیں جن کے تحت تخلیق کاروں اور انٹرنیٹ کمپنیوں کو مقامی روایات اور پاکستان کے سرکاری ضوابط کی پابندی کرنا ہوگی۔ ان ضوابط میں اخلاقی روایات، فحاشی، ریاست اور فوج کے خلاف باتیں اور توہین مذہب جیسے معاملات آتے ہیں۔

حکومت نے نئے سوشل میڈیا قوانین متعاراف کروائے ہیں جن کے تحت سرکاری ضوابط کی پابندی کرنا ہوگی (فوٹو: اے ایف پی)

سب کچھ ’ٹھپ‘ ہونے کا خدشہ

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے سحر شفیق کہتی ہیں کہ  ’پاکستان میں پابندی کا بہت رواج ہے اور کوئی بعید نہیں کہ کل کو یو ٹیوب پر دوبارہ پابندی لگ  جائے اور آپ کے جتنے بھی ویورز ہوں، سب کچھ ٹھپ ہو جائے۔
ان کا کہنا ہے حکومت کو نوجوان یو ٹیوبرز کی مدد کرنی چاہیے اور یہاں پر یو ٹیوب سٹوڈیو کے قیام کے علاوہ تکنیکی اور تجارتی سہولیات فراہم کرنی چاہیے تا کہ پاکستانی نوجوان بھی دیگر ملکوں کے ہم پلہ ہو سکیں۔
جب کہ ریاض چمکنی کہتے ہیں کہ سنسر شپ اور سخت پالیسیوں کی بجائے حکومت کو آسان شرائط پر سوشل میڈیا کو رجسٹر کرنا چاہیے اور اس کو ریگولرائز کر کے قومی دھارے میں لانا چاہیے۔

شیئر: