Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹریک ٹو: کیا اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن کو مذاکرات پر لانے کی کوشش کررہی ہے؟

پی ایم ایل فنکشنل کے رکن محمد علی درانی ڈائیلاگ کا پیغام پی ڈی ایم کے پاس لے کر گئے تھے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حکومت مخالف تحریک کا پہلا مرحلہ مکمل کرنے کے بعد اب اسمبلیوں سے استعفوں اور لانگ مارچ کی تیاری کر رہا ہے۔ اسی دوران سابق وزیر اطلاعات سینیٹر محمد علی درانی نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے جیل میں ملاقات بھی کی۔ 
اس ملاقات کی خبر سامنے آنے کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہوا کہ محمد علی درانی اچانک کس کے کہنے پر ملاقات کرنے پہنچ گئے اور کس کے کہنے پر انھیں ملاقات کی اجازت ملی۔
محمد علی درانی اور حکومت کی جانب سے ابھی تک ان سوالات کا جواب تو نہیں آیا تاہم جیل سے باہر نکل کر محمد علی درانی نے سفارتی اصطلاح ’ٹریک ٹو مذاکرات‘ کی قومی سیاست میں انٹری ضرور دلوا دی۔
محمد علی درانی نے ملاقات کے فوراً بعد کہا تھا کہ ’وہ شہباز شریف کے لیے پیر پگاڑا کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ چونکہ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ سیاسی ماحول اتنا کشیدہ ہے اور کوئی بیٹھنے کو تیار بھی نہیں ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے ہماری تجویز ہے کہ ٹریک ٹو مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو۔‘
ٹریک ٹو ڈپلومیسی ویسے تو دنیا بھر میں چلتی رہتی ہے لیکن اس خطے کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور انڈیا کے تعلقات میں جب کشیدگی ہوتی ہے اور سیاسی و سفارتی سطح پر کوئی رابطہ نہیں ہوتا تو دونوں ممالک کے سابق سفارت کار، کاروباری شخصیات یا تعلقات کی بہتری کے خواہش مند تھنک ٹینکس کے درمیان روابط ہوتے ہیں۔ ان روابط کے ذریعے دونوں ممالک مسائل سے متعلق پیغام رسانی کرتے ہیں۔
جب کسی مسئلے پر بات چیت کے ذریعے حل کی امید نظر آتی ہے تو سفارت یا سیاسی سطح پر باضابطہ رابطہ ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ برف پگھل رہی ہے۔ یہ دراصل ٹریک ٹو ڈپلومیسی ہوتی ہے جو دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے حل کی راہ ہموار کرتی ہے۔ 

محمد علی درانی نے شہباز شریف کے علاوہ فضل الرحمان سے بھی ملاقات کی تھی۔ فوٹو اے ایف پی

محمد علی درانی کی شہباز شریف سے ملاقات کے بعد مذاکرات کے حوالے سے جو ماحول بنتا دکھائی دیا لیکن اسی شام نواز شریف کی ٹویٹ نے ان مذاکرات کا حصہ بننے کو عمران خان کو این آر او دینے کے مترادف قرار دے دیا۔ 
اس کے باوجود محمد علی درانی نے اپنے اعلان کے مطابق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات کی ہے۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ محمد علی درانی اپنی ذاتی حیثیت میں یا اپنی جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ کسی اور کے کہنے پر ہی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد نے اردو نیوز سے گفتگو میں اس حوالے سے بتایا کہ ’محمد علی درانی جی ڈی اے کے ایک اہم رکن ہیں۔ جی ڈی اے تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ محمد علی درانی بلا وجہ نہیں آئے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ تو ذاتی طور پر کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں دیتا۔ یقیناً انھیں کسی نے کہا ہوگا۔ یہ کہنے والے کون ہیں؟ ظاہر ہے عثمان بزدار تو ان کو ملاقات کے لیے نہیں بھیجیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’درانی کا پی ڈی ایم کے پاس جانا میرے لیے اچھنبا نہیں ہے۔ درانی اسٹبلشمنٹ کا آدمی ہے اور اسٹبلشمنٹ کے پاس اب اپوزیشن کو مذاکرات پر لانے کے علاوہ کوئی رستہ نہیں ہے۔ مذاکرات کا واحد مقام پارلیمنٹ ہے۔ جس کا پی ڈی ایم اعلامیے میں ذکر موجود ہے جہاں انھوں نے سارے آپشنز اوپن رکھے ہوئے ہیں۔‘

اپوزیشن جماعتیں نیشنل ڈائیلاگ سے انکار کر چکی ہیں ۔فوٹو ٹوئٹر

تجزیہ کار حسن عسکری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پیر پگاڑا اور کئی دیگر سیاسی قوتیں چاہتی ہیں کہ سیاسی کشیدگی ملک کو نقصان پہنچائے گی۔ اس لیے اس کا کوئی درمیانہ راستہ نکالا جائے۔ پیر پگاڑا نے اس دفعہ لیڈ لی ہے۔ اس لیے بات چیت کی کوشش ہو رہی ہے۔ اگر دونوں جماعتیں براہ راست ملنے میں ہچکچا رہی ہیں تو کسی سطح پر کسی اور کے ذریعے بات چیت ہوسکتی ہے۔‘
تجزیہ کار افتخار احمد کے مطابق ’اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو دوست عمران خان کو لے کر آئے تو وہ سمجھ گئے ہیں کہ ان کا پالا ایک ضدی انسان سے پڑ گیا ہے جو ان کی بات نہیں مان رہا اور اس سے ان کا نقصان ہو رہا۔ موجودہ حکمرانوں کی وجہ سے فوج کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پنجاب سے بھی ان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں جو ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ کو انٹیلی جینس ذرائع سے عوامی جذبات کی خبر ملتی رہتی ہے۔'
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’مقدمات کے  سہارے کب تک چلیں گے؟ اب مقدمات کا لیول یہاں تک آ گیا ہے کہ فلاں پل بنا تھا اس پر خرچ زیادہ آ گیا تھا اس کا حساب دیں۔ اب یہ ہے کہ عمران خان مذاکرات کرنا چاہتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ مذاکرات نہیں کرنا چاہتا تو پھر شاید کچھ اور ہوگا۔‘

اپوزیشن نے حکومت کو استعفے دینے کی ڈیڈلائن 31 جنوری دے رکھی ہے۔ فوٹو ٹوئٹر

دوسری جانب تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ’ٹریک ٹو بات چیت کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ کوشش یا طریقہ کامیاب ہوگا یا نہیں۔ پی ڈی ایم تو بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’بہت سے لوگوں کی جانب سے تناؤ کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن اس کا انحصار حکومت اور اپوزیشن پر ہے کہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ بات چیت کرنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔ اگر دونوں فریق بات چیت پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں تو ٹھیک ہیں ورنہ ملک میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔‘

شیئر: