Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں دل کے مریضوں کو سٹنٹس کا کمی کا سامنا

اصغر نامی مریض کے مطابق دو بار آپریشن کورونا کی وجہ سے ملتوی ہوا، اب کہہ رہے ہیں کہ سٹنٹس نہیں ہیں، اس لیے نہیں ہو سکتا (فوٹو: فری پک)
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں دل کے مریضوں کے بائی پاس آپریشنز میں استعمال ہونے والے مصنوعی سٹنٹس کی کمی کا سامنا ہے۔ تاہم صوبے میں سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ (جس کا کام سٹنٹس کی خریداری کا ہے) کا کہنا ہے کہ سٹنٹس کی خریداری ایک مسلسل عمل ہے جس میں کبھی کبھار تاخیر کا سامنا ہو جاتا ہے البتہ ابھی صورت حال کنٹرول میں ہے۔  
45 سالہ محمد اصغر کا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ دل کے مریض ہیں اور صوبے کے سب سے بڑے دل کے ہسپتال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں بائی پاس کے منتظر ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’میرے دل کا آپریشن کورونا کی وجہ سے دو مرتبہ تاخیر کا شکار ہوا اور تیسری مرتبہ تاریخ ملی ہے۔ مارچ میں میرا آپریشن ہو گا۔ اس مرتبہ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ سٹنٹس نہیں ہیں۔ نئے سٹنٹ آنے تک آپریشن نہیں ہو سکتا۔ یہاں ان لوگوں کے آپریشن ہو رہے ہیں جو باہر سے سٹنٹ خرید کر لا رہے ہیں اب لاکھ روپے میرے پاس تو نہیں کہ میں خرید سکوں۔‘
محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پنجاب بھر میں دل میں ڈالے جانے والے سٹنٹ سنٹرل ریٹ کنٹریکٹ کے ذریعے خریدے جاتے ہیں اور اس مرتبہ محکمے کی ساری قوت کورونا اور اس سے متعلق وسائل کو پورا کرنے پر صرف ہوئی اس لیے سٹنٹس کی خریداری میں چھ مہینے کی تاخیر ہوئی ہے۔‘

سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے اہلکار کے مطابق کورونا کی وجہ سے سٹنٹس کی خریداری میں چھ ماہ کی تاخیر ہوئی ہے (فوٹو: فری پک)

انہوں نے بتایا کہ ’جو کمپنیاں ماضی میں ہسپتالوں کو سٹنٹس فراہم کرتی رہی ہیں، انہی سے کنٹریکٹ کے بغیر ادھار لے کر کام چلایا جا رہا ہے۔ البتہ آپیشن جاری ہیں اور بائی پاس بھی ہو رہے ہیں، تاہم یہ عمل کسی حد تک سست ہوا ہے کیونکہ اس بات کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ نئے سنٹرل کنٹریکٹ کے تحت ایک دفعہ خریداری ہو جائے تو پھر اسی رفتار سے مریضوں کا علاج ہو گا جو پہلے تھا۔‘

سٹنٹس کی خریدرای میں تاخیر کی وجہ؟

محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر سے رابطہ کرنے پر ان کے ترجمان نے بتایا کہ ’میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں کہ سٹنٹس کی قلت ہے۔ لاہور کے تین بڑے ہسپتالوں، جن میں پی آئی سی، میو اور جناح ہسپتال شامل ہیں، میں بالترتیب تین سو ستر، ڈیڑھ سو اور ایک سو تیس سٹنٹس ابھی بھی موجود ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ہسپتالوں میں دو طرح کے دل کے مریضوں کے علاج ہو رہے ہیں ایک وہ جو سٹنٹ کی خریداری خود کر سکتے ہیں اور ایک وہ جن کا علاج مکمل طور پر مفت کیا جاتا ہے۔

پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ہسپتالوں میں سٹنٹس کی قلت کا سامنا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

بقول ان کے ’جو اعداد وشمار اوپر بتائے ہیں وہ مفت علاج کروانے والوں کے ہیں چونکہ سٹنٹس کی خریداری ایک مسلسل عمل ہے اس لیے تعداد اور خریداری کا طریقہ کار بدلتا رہتا ہے اور دو مرتبہ کے علاوہ کبھی بحرانی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور ابھی بھی بحرانی کیفیت نہیں ہے۔ جلد نئی خریداریاں بھی ہو رہی ہیں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کئی مریضوں کے بائی پاس کی تاریخیں سٹنٹس کی عدم کی دستیابی کی وجہ سے تبدیل کی گئی ہیںان کا کہنا تھا ’پچھلے کچھ وقت میں ہسپتالوں کے سسٹم تبدیل ہوئے ہیں کورونا کی پہلی لہر میں تو ایک وقت آیا تھا جب ہسپتالوں کا پورا نظام ٹھپ ہو گیا تھا۔ ایسے میں دل کے نئے مریضوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی تو اس وجہ سے سسٹم پر بوجھ بڑھ گیا اس لیے بھی مریضوں آپریشن کی تاریخیں بدلی گئی ہیں۔‘
پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ہسپتالوں میں سٹنٹس کی قلت کا سامنا ہے۔

سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق سٹنٹس کی خریداری ایک مسلسل عمل ہے (فوٹو: فری پک)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’تمام دل کے بڑے ہسپتال دل کے مفت آپریشن کر رہے ہیں۔ مفت آپریشن والوں کا لوڈ بہت زیادہ ہے، جس وجہ سے بھی کبھی کبھار لوگوں کو غیر ضروری تکلیف کا سامانا کرنا پڑتا ہے۔ اب پی آئی سی تقریباً ساڑھے پانچ سو بیڈ کا ہسپتال ہے اور یہ پاکستان کا سب اچھا دل کی بیماریوں کا ہسپتال ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسی میں اپنا علاج کروائے۔ وہ لوگ بھی ہیں جو اپنا علاج خود کروا سکتے ہیں، ان کو بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے الگ الگ نظام وضع کیےگئے ہیں لیکن یہ بھی ماننا ہوگا کہ مفت علاج والوں کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے۔

شیئر: