Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’غلط فہمی سے دل آزاری ہوئی ہو تو معافی مانگتا ہوں‘

وزیراعظم کے قریبی دوست اور مشیر سید ذوالفقار عباس بخاری نے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے دھرنے کے دوران ان کی گفتگو کے بارے میں غلط تاثر قائم ہونے پر معافی مانگ لی ہے۔ 
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی تقریبا آدھا گھنٹے کی گفتگو سے ایک منٹ کا کلپ نکال کر غط تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی، اور وہ اس غلط تاثر کی وجہ سے ہونے والی لوگوں کی دل آزاری پر معذرت خواہ ہیں۔ 
’اگر یہاں، کراچی، لاہور کسی کو بھی، کسی کی کوئی دل آزاری ہو اس چیز پر، اس غلط فہمی پر، تو اس پر تو میں بالکل معافی مانگتا ہوں اگر وہ غلط سمجھ رہے ہیں۔ لیکن معافی اس چیز کی کہ وہ غلط سمجھ گئے ہیں بات کو۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں یہ کوئی معاملہ تھا ہی نہیں۔ 
’(ہم) گھنٹہ، دو گھنٹے بیٹھے رہے دھرنے پر۔ اورجب ہم نکلے ہیں، اور وہاں پھر میرے اور دو تین علمائے دین سے بات چیت ہو رہی تھی۔  جہاں وہی کیمرے لگے ہوئے تھے، وہ بھی کچھ 20 منٹ، آدھا گھنٹہ ہم کھڑے ہو کر بات کر رہے تھے، اس میں سے ایک منٹ نکالا گیا۔ یہ نہیں کہ اس سے پہلے کیا بولا گیا، اس کے بعد کیا بولا گیا۔ اس میں یہ ہوتا ہے کہ جو انہوں نے پیش کرنے کی کوشش کی اپوزیشن نے۔ اور یہاں جو پھیل گیا تھا، وہ ایسا تھا کہ جیسا میں کہہ رہا ہوں کہ وزیراعظم کو کیا ملتا ہے یہاں آنے سے، فائدہ کیا ملتا ہے۔‘ 
ذوالفقار عباس بخاری سے پوچھا گیا کہ کیا یہ مسئلہ ان کی اردو زبان پر عبور نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جس روانی سے انگریزی بولتے ہیں شاید ان کی اردو اتنی اچھی نہیں۔
’اردو کی وجہ سے تھوڑا سا ہو سکتا ہے کہ اس میں، اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جو پہلے سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ ہماری گفتگو چل رہی ہے، وہ یہ چل رہی ہے کہ خان صاحب تب ہی آئیں گے جب معاملات طے ہو چکے ہوں۔‘  
ذوالفقار بخاری کا کہنا تھا کہ وہاں موجود لوگوں نے ان کی بات کو درست انداز میں سمجھا تھا لیکن ان کے مخالفین نے اس کو دوسرا رنگ دے کر پراپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی۔ 
’اگر ایسا کوئی مسئلہ ہوتا تو پھر میں وہاں پانچ دن نہیں رہ سکتا تھا۔ ہر روز ہم وہاں دھرنے پر جاتے تھے، وہیں مجھے کچھ کہہ دیتے۔ لیکن ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں۔‘  

شیئر: