ٹی وی اینکر رویش کمار نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’انڈیا کا 99 فیصد میڈیا گودی میڈیا ہے‘ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا میں جب سے ٹی وی ریٹنگ پوانئٹ (ٹی آر پی) کے معاملے میں ممبئی پولیس کی جانب سے داخل کی جانے والی اضافی چارج شیٹ میں شامل واٹس ایپ میسیجز کی تفصیل لیک ہوئی ہے بہت سے لوگ حکومت اور میڈیا کی جانب سے اختیار کی جانے والی خاموشی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
مبینہ طور پر یہ واٹس ایپ میسجز ریپبلک ٹی وی کے سربراہ اور اینکر ارنب گوسوامی اور بارک کے سابق سی ای او پارتھو داس گپتا کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مبنی ہیں۔
این ڈی ٹی وی اینکر اور میگسیسے ایوارڈ یافتہ ٹی وی اینکر رویش کمار نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’انڈیا کا 99.999 فیصد میڈیا گودی میڈیا ہے۔‘
انڈیا میں گودی میڈیا اسے کہا جاتا ہے جو حکومت کی گود میں بیٹھ کر حکومت کے ایجنڈے پر عمل کرتا ہے۔
انھوں نے یہ سوال بھی کیا کہ اگر ارنب کی جگہ وہ ہوتے یعنی یہ چیٹ ان سے منسوب ہوتی تو کیا ہوتا؟
خیال رہے کہ رویش کمار کا شمار ان گنے چنے صحافیوں میں کیا جاتا ہے جنھیں حکومت کا ناقد کہا جاتا ہے اور اکثر ٹوئٹر پر ارنب گوسوامی اور رویش کمار کے درمیان پسندیدگی کا مقابلہ بھی کرایا جاتا ہے۔
اردو روزنامہ انقلاب میں شائع ایک مضمون میں بھی اس کی بازگشت سننے کو ملی جس میں ڈاکٹر یامین انصاری 'ارنب کے معاملے میں اتنا سناٹا کیوں؟ سوچتا ہے بھارت!' کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ 'تصور کیجیے کہ کسی شخص کی واٹس ایپ چیٹ لیک ہو جائے اور اس گفتگو میں وزیر اعظم دفتر (پی ایم او) کا ذکر ہو، اے ایس کا ذکر ہو، وزارت اطلاعات و نشریات کا ذکر ہو، این ایس اے کی بات ہو اور سب سے بڑھ کر پلوامہ حملے اور پھر پاک مقبوضہ علاقے میں سرجیکل سٹرائیک پر گفتگو کی گئی ہو۔
اس کے باوجود نہ مین سٹریم میڈیا میں کوئی چرچا یا مباحثہ اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کوئی رد عمل کہ اس پر کارروائی کا دباؤ بن سکے۔'
ان سوالات کا جواب رویش کمار کی پوسٹ میں نظر آتا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’تم کس سے امید کر رہے ہو؟ بھارت کا 99.999 فیصد میڈیا گودی میڈیا ہے۔ یہ ایک فیملی کی طرح کام کرتا ہے۔ آپ کو اس خاندان کے سرپرست کا نام معلوم ہے۔ اس فیملی کے تمام اینکرز اور چینلز کے مالک ارنب ہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سب کے نام الگ ہیں، لیکن کام ارنب کا ہے۔ سوچیے کہ ایک ارنب دوسرے ارنب کے بارے میں کیسے بولے گا۔ لہذا ارنب ارنب کے بارے میں خاموش ہی رہے گا۔'
انھوں نے مزید لکھا کہ 'اگرچہ اس مبینہ چیٹ میں گودی میڈیا کا باہمی مقابلہ نظر آ رہا ہے، لیکن آپ یہ تو دیکھیے کہ گودی میڈیا کا سرپرست کون ہے؟ کیا گودی میڈیا یہ ہمت کر سکتا ہے کہ مقابلہ کی اس لڑائی میں وہ سرپرست سامنے لے آئے؟ کبھی نہیں کرے گا۔ لہذا وہ ارنب کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے محافظ کو بچانے کے لیے خاموش ہے۔'
انھوں نے انڈین میڈیا اور معاشرے پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ 'ارنب صرف نیوز اینکر نہیں ہے۔ وہ ایک سماج ہے۔ اس معاشرے کی سوچ میں، ارنب اور ارنب کے سرپرست کے درمیان حد مٹ گئی ہے۔ اس کے لیے سرپرست ہی ارنب ہے اور ارنب ہی سرپرست ہے۔ تو وہ معاشرہ ارنب اور سرپرست کے لیے خاموش رہے گا۔'
رویش نے لکھا کہ اگر ان کے بارے اس قسم کی کوئی اطلاع سامنے آتی تو کیا ہوتا۔ 'میرے بارے میں ایسی کوئی اطلاع ہوتی تو ارنب سمیت تمام ارنب اس پر گھنٹوں مہم چلا رہے ہوتے۔ تمام وزراء پولیس کے ساتھ میرے گھر آچکے ہوتے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی افسر نوٹس جاری کررہی ہوتیں۔ کیونکہ میں ارنب نہیں ہوں۔'
'اگر میں ارنب ہوتا تو سب خاموش رہتے۔ آئی ٹی سیل خاموش رہتا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ میرے ساتھ کھڑا ہوتا۔'
ہندی اخبار جن ستا کے مطابق رویش کمار کی یہ فیس بک پوسٹ وائرل ہو چکی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس پر اپنا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی افراد ہیں جو رویش کمار کو ٹرول کر رہے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو ان کی باتوں سے اتفاق رکھتے ہیں۔ ایسے صارفین لکھ رہے ہیں کہ لوگوں نے اپنا دماغ گروی یعنی رہن رکھ دیا ہے یا وہ ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں۔
منندر سینی نامی ایک صارف نے لکھا کہ 'کمنٹس پڑھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی آئی ٹی سیل رویش کی پوسٹ کو بہت دھیان سے پڑھ رہا ہے۔'
انقلاب میں شائع مضمون کے نوٹ میں 'صدائے دل' کے عنوان سے لکھا ہے کہ 'آپ صرف سوچ کر دیکھیے کہ ارنب گوسوامی کی جگہ ہم آپ جیسا کوئی معمولی انسان ہوتا، کوئی غیر جانبدار یا صحافتی اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرنے والا اینکر ہوتا، یا پھر 'درباری' نہ ہوکر یا گودی میڈیا سے باہر کا صحافی ہوتا تو آج ہر طرف کیا اسی طرح کی خاموشی یا سناٹا دیکھنے کو ملتا؟‘