Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مالکان کے مینیجر سے انگریزی زبان میں امتحان کی ویڈیو وائرل

اسلام آباد کے ایک نجی ریستوران میں خواتین مالکان کی جانب سے اپنے ادارے کے مینیجر سے کی گئی گفتگو اور اس کی انگریزی زبان کا امتحان لینے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو دیکھنے والوں نے اس پر خاصی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
پاکستان میں ٹوئٹر ٹائم لائنز پر کئی گھنٹوں سے زیر گردش ویڈیو کلپ پر تبصرے کرنے والوں نے کہیں مینیجر سے ڈیلنگ کے انداز کو ناپسند کیا تو کہیں طویل عرصے سے ملازم فرد کے ساتھ آن کیمرہ امتحان کے عمل پر اعتراض کیا۔ کسی کو انگریزی کے جملے غلط بولنے پر خواتین مالکان کے قہقہے اچھے نہیں لگے تو کوئی اسے کام کی جگہ پر ہراسیت قرار دیتا رہا۔
ویڈیو کلپ پر گفتگو کا سلسلہ اتنا بڑھا کہ یہ ’بائیکاٹ کنولی‘ کے ٹرینڈز تک جا پہنچا۔ اس ٹرینڈ میں کی گئی ٹویٹس کی تعداد بھی ہزاروں میں رہی۔
ایک منٹ سے کچھ زائد دورانیے کے ویڈیو کلپ میں دو خواتین خود کو ریستوران کے مالک کے طور پر متعارف کراتی ہیں اور پھر اپنی بوریت دور کرنے کے لیے سٹاف سے گفتگو کا فیصلہ کرتی ہیں۔
ویڈیو میں کی گئی گفتگو مینیجر کے عرصہ ملازمت، انگریزی سیکھنے کے دورانیے سے ہوتی ہوئی ایک موڑ پر وہاں موجود ملازم کی انگلش زبان کی اہلیت چیک کرنے تک پہنچتی ہے۔ خواتین کی جانب سے اپنے ادارے کے ملازم کو انگریزی میں کچھ جملے بولنے اور پھر اسی زبان میں اپنا تعارف کرانے کا کہا جاتا ہے۔
ریستوران مینیجر چند جملے ادا کرنے کی کوشش میں غلط انگریزی بولتا ہے تو خود کو ریستوران کی مالکان کے طور پر متعارف کرانے والی خواتین اس پر ہنستے ہوئے تبصرہ کرتی ہیں۔ جس میں لمبے عرصے سے بھاری تنخواہ کی ادائیگی کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔
ریستوران کی انتظامیہ نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر جاری وضاحتی پیغام میں کہا ہے کہ وہ لوگوں کے ردعمل پر افسردہ اور حیران ہیں کہ ایک ٹیم رکن کے ساتھ گفتگو کا کس اندز میں غلط مطلب نکالا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ویڈیو میں ظاہر ہے کہ ہم بطور ایک ٹیم آپس میں گپ شپ لگا رہے ہیں اور اس کا قطعاً کوئی منفی مقصد نہیں تھا نہ ہی کسی کی دل آزاری کرنا تھا۔‘
بیان میں انتظامیہ کی جانب سے معافی مانگی گئی ہے تاہم ساتھ ہی میں واضح کیا ہے کہ اس گپ شپ کا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریستوران انتظامیہ کو خود کو مہربان آجر ہونے کا ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے، ٹیم دس سالوں سے ریستوران کے ساتھ ہے اور یہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے۔
وضاحتی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے جو اپنی زبان اور ثقافت سے محبت کرتے ہیں۔‘
معاملے پر ردعمل دینے والے صارفین کی اکثریت نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو ریستوران کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ’احترام سب کا‘ کو اپنے مینیو کا حصہ بنائیں۔

ناراضی کا اظہار کرنے والوں کی گفتگو میں طنزیہ تبصروں کی کاٹ بڑھی اور تنقید کے رنگ گہرے ہوئے تو صارفین اظہار خیال کے لیے میمز ڈھونڈ لائے جہاں ’سستے انگریز‘ تلاش کیے جاتے رہے۔

ویڈیو پر تبصرہ کرنے والے صرف فیس بک اور ٹوئٹر تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ دیگر پلیٹ فارمز پر جا کر ’ریویوز‘ کی صورت بھی اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے رہے۔

ویڈیو انسٹاگرام پر بھی شیئر کی گئی، یہاں گفتگو کرنے والے صارفین میں کچھ ایک قدم آگے بڑھ کر ریستوران کے نام اور اس کے پس پردہ موجود وجہ میں دلچسپی لیتے دکھائی دیے۔

بات کا رخ سماجی رویوں کی جانب بڑھا تو کچھ صارفین نے جہاں اس عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا وہیں کچھ دیگر نے اسی پہلو کو بنیاد پر طنزیہ انداز میں ملازمین نے برتاؤ کے مجموعی رویوں کا ذکر کیا۔

کچھ صارفین نے مختلف زبانوں کے الگ الگ لہجوں کا ذکر کیا اور لہجوں کے فرق پر شرمندہ نہ ہونے کی تلقین کی تو ساتھ ہی اپنی اس نصیحت کی وجہ بھی بتائی۔

انگریزی نہ بول سکنے پر کیے گئے مذاق پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے والے کچھ صارفین نے دوسروں کو تجویز دی کہ کسی بھی ایلیٹ ریستوران جائیں تو اپنی زبان بولیں۔ اس موقع پر کچھ صارفین یہ نشاندہی بھی کرتے رہے کہ کوئی زبان یا انگریزی آنا کسی کی صلاحیت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔

معاملے پر گفتگو کے دوران ملازم کی غلط انگریزی پر طنز اور قہقتے تنقید کا نشانہ تو بنے ہی، ’کنولی بائے کیفے سول‘ کی مالکان سے معافی کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا۔

وڈیو کلپ کی وجہ سے شروع ہونے والی بحث کے شرکا نے طبقاتی فرق کو موضوع بنایا تو معاشرے کے مختلف حصوں کی جانب سے ایک دوسرے کے ساتھ روا رکھنے جانے والے انداز اور ان کی خرابیوں پر بھی گفتگو کی جاتی رہی۔

شیئر: