’معاشرے میں جو ہو رہا ہے ڈراموں میں وہی دکھا رہے ہیں‘
’معاشرے میں جو ہو رہا ہے ڈراموں میں وہی دکھا رہے ہیں‘
جمعہ 22 جنوری 2021 8:38
آمنہ کنول
ہمایوں سعید کا ماننا ہے کہ بعض اوقات ڈرامے کی کہانی اچھی نہ بھی ہو تو کچھ کرداروں کی بنیاد پر ہی وہ ڈرامہ چل جاتا ہے۔ فوٹو: ہمایوں سعید انسٹاگرام
اداکار و پرڈیوسر ہمایوں سعید کہتے ہیں کہ ’میرے پاس تم ہو‘ جب بنا رہے تھے تو معلوم نہیں تھا کہ پورا پاکستان اس کے ساتھ جڑ جائے گا۔
ہمایوں سعید کا کہنا ہے کہ ’تین چار سال میں ایک ڈرامہ کرتا ہوں اور ندیم بیگ کے ساتھ بار بار کام کرنے کا مقصد کوئی گروپنگ نہیں ہے بس ہم ایک ٹیم بن چکے ہیں اور بغیر ہچکچاہٹ کے مل بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں کہ کون سا پراجیکٹ اور کون سی کہانی کرنی ہے۔‘
اردونیوز کے ساتھ انٹرویو میں ہمایوں سعید نے کہا کہ کورونا کی پہلی لہر میں چار ماہ تک شوٹنگز بالکل رک گئی تھیں کسی نے کوئی کام نہیں کیا تھا لیکن اس کے بعد ایس او پیز کے ساتھ کام شروع کیا گیا۔ بہت سارے اداکاروں کو کورونا ہوا بھی اور ٹھیک بھی ہو گئے۔ اب جن کو کورونا نہیں ہوا وہ آج بھی کورونا کی دوسری لہر میں ڈرتے ہیں، ہینڈ سینٹائزراور ماسک کا استعمال کرتے ہیں، شوٹنگ کے دوران احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
ہمایوں سعید کا کہنا تھا کہ ’ویب سیریز کی وجہ سے پاکستانی ڈرامے کا مستقبل بالکل بھی خطرے میں نہیں پڑا اور اگلے پانچ چھ سال تک تو ویب سیریز بالکل بھی ڈرامے کو متاثر نہیں کر سکیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جو ڈرامہ بنا رہے ہیں اور جس طرح ڈرامہ لکھا جاتا ہے وہ ویب سیریز سے بالکل ہٹ کر اور الگ ہے اسی لیے ناظرین ویب سیریز کو دیکھنے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ہمایوں سعید نے کہا کہ ’ہمارے ہاں بننے والے ڈرامے سوشل ایشوز کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس میں گھریلو ساس بہو کی سیاست کو دیکھایا جاتا ہے، فحاشی بالکل نہیں دکھائی جاتی ہے۔ چونکہ کہانیاں سوشل ایشوز پر بنتی ہیں تو اس میں کبھی کبھی کوئی ایسا سلگتا موضوع بھی چن لیا جاتا ہے جس کی کہانی آن ایئر جانے کے بعد تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ ‘
ہمایوں سعید کا اسی حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ’میں ایسی تنقید کو جائز اس لیے نہیں سمجھتا کیونکہ ہمارے معاشرے میں جو ہو رہا ہے ہم وہی دکھا رہے ہوتے ہیں تو پھر تنقید کیسی؟‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ڈرامہ بنانے اور دکھانے کا اصول ہی یہی ہے کہ اس میں فحاشی دکھائی جائے نہ ہی اخلاقیات کی حدوں کو عبور کرتے ہوئے ڈائیلاگز ہوں اور میرے خیال میں ہمارے ہاں ان دونوں ہی باتوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔‘
ہمایوں سعید نے بتایا کہ ’یہ تاثر کچھ درست بھی ہے کہ چینل کے ایما پر ڈرامہ تیار ہوتا ہے لیکن یہ کہنا کہ رائٹر کے ہاتھ بالکل ہی بندھے ہوتے ہیں تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ سینیئر لکھاریوں کو تو بالکل ڈکٹیشن نہیں دی جاتی۔ ہاں جو نئے لکھاری ہیں جن کو گائیڈ لائن کی ضرورت ہے ان کو یقیناً ڈکٹیشن دی جاتی ہے کہ آپ کیسے لکھیں اور کیا لکھ کر دیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ رائٹر کو ڈکٹیٹ کیا جاتا ہے یا اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یہ غلط بات ہے۔‘
ہمایوں سعید کے مطابق اچھے لکھنے والے بہت کم رہ گئے ہیں اور خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں اچھا لکھنے والوں کی بہت قدر کی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ہمایوں سعید نے کہا کہ ڈرامہ دیکھنا لوگوں کی عادت بن چکی ہے لوگ ڈرامہ دیکھتے ہیں تو ریٹنگ آتی ہے۔ ’میں یہ مانتا ہوں کہ ہمارے ہاں کلاس کا بنا ہوا اور اچھے طریقے کا لکھا ہوا ڈرامہ کم ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں نے ڈرامہ دیکھنا نہیں چھوڑا، اب ڈرامہ سیریل ’نند‘ پر بہت تنقید بھی ہوئی ہے لیکن یہ ڈرامہ دیکھا جا رہا ہے۔‘
ہمایوں سعید کا ماننا ہے کہ بعض اوقات ڈرامے کی کہانی اچھی نہ بھی ہو تو کچھ کرداروں کی بنیاد پر ہی وہ ڈرامہ چل جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ کرداروں میں خود کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں وہ کردار کسی نہ کسی کی زندگی سے جڑے ہوتے ہیں۔
ہمایوں سعید کہتے ہیں کہ ’ڈرامے کی کہانیاں کل بھی وہی تھیں آج بھی وہی ہیں، فرق صرف دکھانے کا ہوتا ہے اگر آپ کسی عام سی کہانی کو بہترین انداز میں دکھائیں تو وہی چیز دیکھنے میں مختلف لگ رہی ہوتی ہے اور دل کو چھوتی ہے اچھی سے اچھی کہانی کو اچھے طریقے سے نہ دکھایا جائے تو دیکھنے والے اس میں دلچپسی نہیں لیتے۔ لہٰذا اچھے انداز میں کہانی پیش کرنے پر زور دیا جانا چاہیے۔‘
ہمایوں سعید کے مطابق ’لوگ طلاق کو ڈرامے میں دکھانے پر خاصا اعتراض کرتے ہیں۔ میرا ان سب سے سوال ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح زیادہ نہیں ہے؟ کیا شادی شدہ مرد دوستیاں نہیں کرتے؟ افیئرز نہیں چلاتے، کیا عورتیں بے وفائی نہیں کرتیں، بے شک اس چیز کی شرح بہت کم ہے لیکن ہے تو سہی نا، اب ’میرے پاس تم ہو‘ میں اگر عورت کی بے وفائی دکھائی گئی ہے تو اس پر دیکھنے والوں نے حد سے زیادہ اعتراض نہیں کیا لیکن اعتراض ہوا بھی لیکن چونکہ دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ تھی لہٰذا وہ اعتراض ہی دھندلا سا گیا تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم وہی کچھ دکھاتے ہیں جو معاشرے میں ہو رہا ہے، لہٰذا تنقید کے نشتر چلانے کے بجائے حقیقت پسندی سے کام لیا جائے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ہمایوں سعید نے کہا کہ ’میرے پاس جتنے بھی لوگ آئے وہ بعد میں اچھے اداکار ثابت ہوئے۔‘
ہمایوں سعید نے کہا کہ ’میں کرکٹ کھیلنے کا بہت شوقین ہوں اور یہ ملک بھی ایک کرکٹر ہی چلا رہا ہے اور میں خاصا مطمئن ہوں کہ اچھا کام ہو رہا ہے تین سال سے کم کے عرصے میں اتنی بہتری لانا معمولی بات نہیں ہے۔‘
آپ کا نام کسی نہ کسی ہیروئین کے ساتھ جڑ جاتا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ہمایوں سعید نے کہا کہ ’میرا دل کسی پہ نہیں آتا یہ ایک مذاق ہی بن گیا ہوا ہے، بس ایک سکینڈل 20 برس پہلے آیا تھا میرا لیکن اس میں بھی سچائی نہیں تھی اس کے علاوہ کبھی میرا کوئی سکینڈل نہیں بنا، ہاں میرا نام کسی کے ساتھ بھی جوڑ دیا جاتا ہے شاید میں رومینٹک ہیرو ہوں، سکرین پہ رومانس کرتا دکھائی دیتا ہوں، اس لیے لوگوں کو لگتا ہے کہ شاید یہ ذاتی زندگی میں بھی ایسا ہی ہو گا، میری بیوی پہ ہی میرا دل آیا اس کے بعد کسی پہ نہیں آیا نہ آئے گا۔‘
اپنی شریک حیات کے بارے میں ہمایوں سعید بتاتے ہیں کہ ’ثمینہ ایک بہت ہی اچھی لائف پارٹنر ہیں، ان سے ملاقات کچھ یوں ہوئی تھی کہ میں ان کے گھر شوٹنگ کرنے جایا کرتا تھا چونکہ ان کی امی کی میری امی سے دوستی تھی اس لیے مجھے ثمینہ کے گھر میں کام کے دوران پروٹوکول ملتا تھا۔ ثمینہ مجھے طرح طرح کے کھانے بنا کر کھلاتی تھی بس وہیں سے ثمینہ نے میرے دل میں گھر کر لیا۔ ان کی کیئر کا انداز دیکھ کر لگا کہ شاید یہ میرے لیے ہی بنی ہیں۔ بس شادی کا فیصلہ کر لیا اور آج بھی اس فیصلے سے بہت خوش ہوں۔‘
ہمایوں اپنی فٹس برقرار رکھنے کے لیے روزانہ ایک گھنٹہ سائیکلنگ کرتے ہیں اور ایک گھنٹہ جم۔ ان کی آنے والی فلموں میں ’نرم گرم‘ اور ’لندن نہیں جاﺅں گی‘ شامل ہیں۔