جب سے واٹس ایپ کی اس پالیسی کا اعلان ہوا ہے کہ وہ صارفین کا ڈیٹا شیئر کر سکتا ہے سارے معاشرے میں ایک سراسیمگی سی چھا گئی ہے۔ وہ ساسیں جو بہووں کے خلاف بیٹوں کو وٹس ایپ پر بھڑکاتی تھیں وہ الگ پریشان ہیں۔
وہ بہوئیں جو واٹس ایپ پر ساسوں کی شوہروں کو شکایتیں لگاتی تھیں، وہ الگ خوفزدہ ہیں۔ وہ بچے جو ماں باپ سے چھپ کر ناگفتہ بہ حرکتوں میں مصروف تھے ان پر خوف کا عالم طاری ہے۔
وہ نوجوان جو ’گڈ مارننگ جانو‘ کے پیغامات باقاعدگی سے بھیجتے تھے، ان پر الگ لرزہ طاری ہے۔ شادی شدہ مردوں کی حالت سب سے تشویش ناک ہے، وہ حضرات جو فون کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے، اب اسی منحوس فون کو ہاتھ لگاتے ہی ان کی جان نکل جاتی ہے۔
کچھ خواتین بھی پریشان ہیں کہ کہیں امریکہ والے کزن سے ’چیٹ‘ ہی نہ طشت از بام ہو جائے۔ چھپ چھپ کر ڈیٹیں مارنے والے اب توبہ تائب پر آ چکے ہیں۔ استغفار اور نماز ِتوبہ پڑھ رہے ہیں۔ جن کے کان ہمیشہ وٹس ایپ کال پر لگے ہوتے تھے اب وہ خود "میوٹ " ہوچکے ہیں۔
واٹس ایپ کی گھٹنی بجنے سے پہلے جن چہروں پر رونق آ جاتی تھی، اب انھی پر رقت طاری ہو جاتی ہے ۔ ویڈیو کال کے شائق اب ہاتھ میں تسبیح لیے پھرتے ہیں اور اس موئے وٹس ایپ کے برباد ہونے کے وظیفے پڑھتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
ٹیلی گرام پر منتقل ہونا صارفین کے لیے کتنا محفوظ ہوگا؟Node ID: 530736