سعودی اصلاحات مملکت کو مضبوط بنا رہی ہیں، ہسپانوی وزیر خارجہ
سعودی اصلاحات مملکت کو مضبوط بنا رہی ہیں، ہسپانوی وزیر خارجہ
بدھ 10 فروری 2021 22:50
سعودی عرب اور سپین کے مابین تعلقات کی طویل تاریخ موجود ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب اب زیادہ صحت مند ہے کیونکہ اس میں اصلاحات ہو رہی ہیں ۔ان خیالات کا اظہار سپین کی وزیر خارجہ ارانچا گونزالزلایا نے ریاض میں گفتگو کے دوران کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ہسپانوی وزیر خارجہ نے کہا ہےکہ سعودی عرب جن اصلاحات کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ، وہ آپ کوتکلیف دینے کے لئے نہیں بلکہ آپ کو مضبوط بنانے کے لئے ہیں۔
سعودی عرب کے وژن 2030 کے حوالے سے ارانچا گونزالز نے کہا ہے کہ اس کا تصور بالکل واضح ہے۔
اس وژن کو علم ہے کہ اسے سرمایہ کاری کہاں کرنی ہے ، اسے لوگوں کی مہارتوں میں سرمایہ کاری کرنی ہے۔
اسے بنیادی ڈھانچوں ’’انفرااسٹرکچرز‘‘ میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے ، یہ انفرااسٹرکچرز ملک کو جدید بنائیں گے۔ سعودی وژن سیاحت میں بھی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔
ارانچا گونزالزلایا نے کہا کہ مملکت میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے اور ہم ان سب کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اگر سعودی عرب مضبوط ہوگا تو یہ سعودی عرب کے لئے اچھاہوگا اور یہ سپین کے لئے بھی بہتر ہوگا۔
گونزالز پیر کو ریاض پہنچی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے میٹرو میں سفر کے دوران سعودی عرب میں ہسپانوی کاروباری اداروں کی سرمایہ کاری کا مشاہدہ کیا۔
میں نے ریاض میٹرو کا دورہ کیا اور اس کے مختلف کاموں کا جائزہ لیا۔ وہاں زیر زمین ایک بڑا کنسورشیم ہے جوہسپانوی کمپنی کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔
یہ کمپنی میٹرو کی 3 لائنوں کی ذمہ دار ہے لہٰذا میں سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنے والے ہسپانوی کاروباری اداروں کی شاندار کارکردگی دیکھنا چاہتی ہوں۔
میں نے وہاں جو کچھ دیکھا اس پر مجھے بے حد فخر ہے تاہم ایسا بھی نہیں کہ وہاں سب کچھ ٹھیک ہے کیونکہ یہ خطہ اب بھی بحرانوں کا شکار ہے ۔
سپین کی وزیر خارجہ نے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان کے ساتھ ملاقات سے قبل کہا کہ یہاں پڑوس انتہائی پیچیدہ ہے ۔یہاں عدم استحکام کے بہت سے عوامل ہیں۔
جنگ کے باعث شام میں عدم استحکام ہے، لبنان بھی عدم استحکام کا شکارہے جہاں حکومت سازی میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی عدم استحکام ہی ہے کہ ابھی تک اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن معاہدہ نہیں ہوسکا ۔ یمن ، عراق اور افغانستان میں بھی عدم استحکام ہے۔
مشرق وسطیٰ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عدم استحکام سے پڑوسی ریاستوں کو ان ممالک کا دوست ہونے کی حیثیت سے تشویش لاحق ہوتی ہے۔ہم بھی اپنے آپ کوآپ کا دوست سمجھتے ہیں۔
خطے کے دوسرے ممالک کی طرح سعودی عرب اور سپین کے مابین تعلقات کی طویل تاریخ ہے۔
عرب صدیوں تک ہسپانیہ میں موجود رہے ہیں، ہمارے پکوانوں میں، زبان میں، روزمرہ زندگی میں اورہمیں دکھائی دینے والی تمام عمارتوں میں ان کی موجودگی کی گہری جڑیں ہیں جنہوں نے ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے۔ ہمارے تعلقات اچھے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مزید بہتر ہوسکتے ہیں اور اس کے لئے گنجائش بھی ہے اور موقع بھی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں سپین کا عزم سنجیدہ اور گہرا ہے۔
گونزالز نے کہا کہ سپین اس سے متعلق بہت کچھ جانتا ہے کیونکہ ہم اندرون ملک پنپنے والے اور غیر ملکی دونوں قسم کے دہشت گردوں کا شکار ہوئے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کا مقابلہ بھی قانون کی طاقت اور انصاف کی طاقت سے کیاجانا چاہئے۔
گونزالز کا خیال ہے کہ مذاکرات بڑے مسائل کے حل کی کلید ہے۔ جے سی پی او اے جو مذاکرات کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، اس میں مزید اضافہ کیا جانا چاہئے۔
بنیادی طور پر، یہ سیکھنے اور ایڈجسٹ کرنے کے بارے میں ہے لیکن میں یہ ہرگز نہیں کہہ سکتی کہ اسے ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے یا اسے کس طرح ایڈجسٹ کرنا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم اسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
ایران کی بدنیتی پر مبنی کارروائیاں جن میں حوثی ملیشیا کے ذریعہ سعودی عرب کو نشانہ بنایاجاتا ہے، یہ مسئلہ اب بھی جاری ہے۔
دونوں رہنماوں کےمابین یمن میں حوثی باغیوں کی جارحیت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ گونزالز نے کہا کہ یمن کا مسئلہ غیر حل شدہ ہے۔
ہم نے اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے اور سعودی عرب اپنے کچھ ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کران کوششوں کا حصہ بھی رہا ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اس کا کچھ اثر ہوا ہے۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ شاید اب حکمت عملی پر دوبارہ غور کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے بینر تلے ایک بڑا اتحاد بنانا ہو تاکہ یمن میں مختلف حالات کے ساتھ کوئی حل نکالا جا سکے۔
حالیہ برسوں کے دوران ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کی مسلسل جارحیت کی وجہ سے جنگ زدہ ملک میں صورتحال شدید ترہو گئی ہے۔
بیلسٹک میزائلوں کے ذریعہ سعودی عرب کو نشانہ بنانا اور انسانی امداد کوغریب یمنیوں تک پہنچنے سے روکنے کی وجہ سے نہ صرف ملک بلکہ اس کے شہری بھی تباہ ہوئے ہیں۔
یونیسیف کے مطابق اس صورتحال نے اسے دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحرانوں میں سے ایک بحران بنا دیا ہے۔