Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دارا شکوہ کی نامعلوم قبر دریافت ہو سکے گی؟

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں واقع انڈیا گیٹ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر مغل شہنشاہ ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ یہ مقبرہ اب حکومت ہند کے ایک خفیہ مشن کا مرکز بن گیا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی زیر قیادت حکومت اس مقبرہ میں بڑی شدت سے مغل شہزادے دارا شکوہ کی قبر کی شناخت کی کوشش کر رہی ہے۔
چونکہ اس مقبرہ کی تزئین و آرائش اور بحالی کا کام آغا خان ٹرسٹ اور آثارِ قدیمہ سروے آف انڈیا کے زیر اہتمام 2013 ہی میں مکمل ہوا ہے۔ اسی لیے دارا شکوہ کی قبر کی تلاش کے لیے متعلقہ اداروں کی مدد لی جا رہی ہے۔
اردو نیوز نے ہمایوں کے مقبرے میں انتظامی عہدوں سے وابستہ ذمہ داروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ بہت ہی حساس ہے۔ اس مقبرہ کی جو تاریخ اور تفصیلات دستاویزات میں ہیں، اس سے زیادہ یہاں کوئی کچھ نہیں جانتا۔
عہدیداران کے مطابق زیادہ تر لوگوں کو تو قبروں کے بارے میں بھی معلوم نہیں۔ تاہم انہیں ریکارڈز پر نظر رکھنے لیے کہا گیا ہے کہ کیا پتہ کچھ معلوم ہو جائے، لیکن اس کا بہت زیادہ یقین نہیں کر سکتے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے پاس بھی اس حوالے سے کوئی خبر نہیں ہے۔ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان سب کاموں میں وقت لگتا ہے۔ کمیٹی بنی ہے، انہیں ہی سب کچھ طے کرنا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دارا شکوہ 20 مارچ 1615 کو اجمیر میں پیدا ہوئے۔ وہ شاہ جہاں کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور اپنے باپ کے بعد تخت کے دعویدار بھی۔
سنہ 1675 میں جب شہنشاہ شاہ جہاں علیل ہوئے تو انہوں نے اپنے سب سے لاڈلے بیٹے دارا شکوہ کو ولی عہد منتخت کرنے کا اعلان کیا۔ مگر قسمت نے وفا نہیں کی اور ان کے بھائی اورنگزیب نے سمو گڑھ کی لڑائی کے بعد اقتدار چھین لیا۔

دارا شکوہ  شاہ جہاں کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور اپنے باپ کے بعد تخت کا دعویدار بھی۔ (فوٹو: اردو نیوز)

دارا شکوہ اپنے بیٹے سپر شکوہ اور دو بیٹیوں کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ مغل فرماں روا اورنگ زیب نے علما کی مجلس منعقد کی اور دارا شکوہ کے قتل کا فتویٰ جاری کیا۔
مؤرخین دارا شکوہ کے قتل اور اس کے دفن کی تفصیلات پر بہت واضح نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دارا شکوہ کے قتل کے بعد ان کی لاش کو بطور عبرت ہاتھی پر لدوا کر دہلی میں گھمایا گیا اور پھر ہمایوں کے مقبرے کے کسی نامعلوم احاطے میں دفن میں کر دیا گیا۔
برسوں گزر گئے لیکن دارا شکوہ کی قبر کی شناخت نہیں ہو سکی۔ مختلف مورخین الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ ہمایوں کے مقبرے میں کچھ نا معلوم قبریں ہیں۔ ان میں سے کسی ایک قبر کا دارا شکوہ کے ہونے کا اشارہ دیتے ہیں مگر کوئی طے نہیں کر پایا کہ دارا شکوہ کی قبر کون سی ہے؟
اب یہ ذمہ داری انڈیا کی حکومت نے اٹھائی ہے اور دارا شکوہ کی قبر تلاش کرنے کی ٹھانی ہے۔ جس کے لیے حال ہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جس میں آثار قدیمہ کے اعلیٰ عہدیداران اور عہد وسطی کی تاریخ پر نگاہ رکھنے والے کچھ مورخین شامل ہیں۔
ہمایوں کے مقبرے میں کئی قبریں ہیں۔ جس میں کچھ معلوم تو کچھ نامعلوم۔ اس مقبرے کی عمارت سے باہر بھی کچھ قبریں ہیں، جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔

موجودہ حکومت کی جانب سے دارا شکوہ کی عظمتوں کے اعتراف کے کئی مواقع پیدا کیے گئے (فوٹو: اردو نیوز)

اس کے علاوہ ساری زمین سپاٹ ہے۔ یا تو نالیاں بنی ہوئی ہیں اور یا دیواروں سے متصل کچھ کمرے۔ اسی کے ساتھ تاریخی شواہد بھی پختہ نہیں ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت کے لیے دارا شکوہ کی قبر کی شناخت کتنا آسان یا مشکل ہوگا اور کیا دارا شکوہ کی قبر کی شناخت اہم ہے؟
حکومت نے گذشتہ سال کے اواخر میں جب دارا شکوہ کمیٹی کا اعلان کیا تو کسی کو حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ اس سے قبل ہی حکومت کی جانب سے دارا شکوہ کی عظمتوں کے اعتراف کے کئی مواقع پیدا کیے گئے۔ حکومت کے کئی گورنر دارا شکوہ کی مثال پیش کرتے نظر آئے۔ بی جے پی کے دور حکومت میں دارا شکوہ کی قبر تلاش اور دارا شکوہ کی عظمتوں کی بحالی پر زور ایسے ہی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کے پس پشت ایک خاص راز ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اسلامی تاریخ کے ماہر پروفیسر اخترا لواسع نے کہا کہ دارہ شکوہ کی قبر کی تلاش سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ یہ صرف اورنگزیب کو کنارہ کرنے کے لیے ہے۔ جو سیاسی مقتدرہ ہے، جب وہ کسی شخصیت کی سر پرستی کرنے لگے تو وہ اس کا مقصد اس شخصیت کو داغی بنا دیتا ہے۔ اور نگزیب کو پس پشت ڈالنے کے لیے دارہ شکوہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسلامی تاریخ کے ماہر پروفیسر اخترا لواسع کا کہنا ہے کہ دارا شکوہ کی قبر کی تلاش اورنگزیب کو کنارہ کرنے کے لیے ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

سوال یہ ہے کہ دارہ شکوہ نے جو علمی کام کیے اس کی اشاعت کے لیے آپ نے کیا کیا؟ دہلی کی ایک شاہراہ اورنگزیب روڈ کا نام بدلا مگر اس کا نام دارا شکوہ نہیں رکھا، بلکہ اے پی جی عبدا لکلام رکھا۔ جبکہ ابھی جو سڑک ہے دارا شکوہ کے نام سے اسے کوئی جانتا نہیں، اگر اورنگزیب سے شکایت تھی اور بدلہ بھی لینا تھا، تو اس کے اور بھی طریقے ہو سکتے ہیں، حالانکہ اور نگزیب کی تاریخ کو مٹانے سے تاریخ نہیں بدل سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’مؤرخین کے اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ داراشکوہ کو دہلی میں ہمایوں کے مقبرے میں کہیں دفن کیا گیا تھا۔ اب مودی حکومت دارا کی قبر کی شناخت کے لیے ماہرین آثار قدیمہ کی مدد لے رہی ہے۔ قبر مل جائے تو اچھا مگر اس سے اچھا ہوتا کہ دارا شکوہ کے کام کا اعتراف ہوتا اور ہندوستانی مسلمان جو دارا شکوہ کے ہم فکر ہیں، ان کی عزت ہوتی۔ صرف دارہ شکوہ کی قبر ڈھونڈنے سے کیا ملے گا، دارا شکوہ کی فکر کو بھی تلاش کیجیے۔‘

ہمایوں کے مقبرہ میں کون کون دفن ہے ؟

ہمایوں کا مقبرہ کافی وسیع احاطے پر پھیلا ہے۔ یہاں شہنشاہ ہمایوں کے علاوہ شاہی خاندان کے دیگر افراد بھی دفن ہیں جن میں بیگا بیگم، شہنشاہ جہاں دار شاہ، شہنشاہ رفیع الدرجات، شہنشاہ عالم گیر ثانی، شہنشاہ فرخ سیر کے علاو مقبرۂ عیسیٰ خاں، مقبرۂ بوحلیمہ، افسروالا مقبرہ، نائی کا مقبرہ بھی ہے۔ جس کے آس پاس اور بھی کئی نا معلوم افراد دفن ہیں۔

شیئر: