الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات پرانے طریقہ کار یعنی خفیہ اور ناقابل شناخت بیلٹ پیپرز پر ہوں گے۔
اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی دو ماہ سے زائد کی کوششیں ناکام اور مطالبے پورے نہیں ہو سکے۔
سینیٹ انتخابات میں پیسوں کے لین دین کے خدشات پر وزیر اعظم عمران خان نے اوپن بیلٹ انتخابات کی تجویز اور آئین میں ترمیم کے لیے اپوزیشن سے تعاون کی اپیل کی۔
حکومت اپوزیشن تعلقات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اس معاملے پر بات آگے نہ بڑھی تو حکومت نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے رائے مانگ لی۔
مزید پڑھیں
-
سپریم کورٹ کی رائے کے بعد کیا الیکشن کمیشن مزید مضبوط ہوگیا؟Node ID: 545251
23 دسمبر کو دائر ہونے والے ریفرنس کی 17 سماعتوں کے بعد یکم مارچ کو سپریم کورٹ کی رائے سامنے آئی جس کے بعد حکومتی وفد نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کے بارے میں فاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بتایا کہ ’ہم نے الیکشن کمیشن کو اپنی پوری حمایت کا یقین دلایا اور ہمارا مدعا یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کیا جائے۔‘
اس کے ایک دن بعد منگل کو الیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات پرانے طریقہ کار کے مطابق الیکشن کرانے کا اعلان کیا۔
اس فیصلے سے حکومت کا پہلا اور بنیادی مطالبہ کہ انتخابات اوپن یا قابل شناخت بیلٹ پیپر پر ہوں نظر انداز کر دیا گیا۔
اس سے قبل ریفرنس کی سماعت کے دوران ہی حکومت نے ایک طرف الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے صدارتی آرڈینینس جاری کیا اور اسے سپریم کورٹ کی رائے سے مشروط کر دیا۔
الیکشن کمیشن نے سینٹ کے انتخابات میں ووٹوں کی خرید وفروخت اور کرپشن روکنے کیلئے ٹیکنالوجی استعمال کرنےکی اہمیت کو تسلیم کیا ہے لیکن حیران کن طور پر وہ ان اصلاحات کو اگلے انتخابات کیلئے مؤخر کر رہے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ بہرحال مختلف رائے دیتا ہے ہمارے لئے دونوں ادارے محترم ہیں
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) March 2, 2021