Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنجیدہ چہرے، تلخ لہجے: ششماہی اتحاد کا اختتامی اجلاس؟

گزشتہ سال ستمبر میں وجود میں آنے والا اپوزیشن کا اتحاد صرف چھ ماہ میں ہی مختلف نشیب و فراز کا شکار ہوتے ہوئے منگل کو لرزتا نظر آیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کو اس اتحاد کی مختصر تاریخ کا سب سے سنسی خیز اجلاس قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس اجلاس نے اتحاد کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں وجود میں آنے والا اپوزیشن کا اتحاد صرف چھ ماہ میں ہی مختلف نشیب و فراز کا شکار ہوتے ہوئے منگل کو لرزتا نظر آیا۔
اجلاس سے قبل بھی یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ اپوزیشن جماعتوں میں لانگ مارچ سے قبل استعفوں کے معاملے پر اختلافات ہیں تاہم کسی کو یہ نہیں پتا تھا کہ یہ اختلاف شام تک اتنے شدید ہو جائیں گے کہ ایک دوسرے کا سامنا مشکل ہو جائے۔

 

سہ پہر کو اجلاس شروع ہوا ہی تھا تو مقامی میڈیا نے ذرائع سے منسوب یہ خبریں سامنے آ گئیں کہ کراچی سے ویڈیو لنک پر اپنی تقریر میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے اپنی جماعت کے استعفوں کو مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کر دیا ہے اور انہیں جیل جانے سے نہ ڈرنے کا مشورہ دیا ہے۔
جس کے جواب میں مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز نے کہا کہ کیا آصف زرداری ان کی پاکستان واپسی پر زندگی کی ضمانت دے سکتے ہیں؟
اجلاس کی کوریج کے لیے جب میں مسلم لیگ ن کے مقامی رہنما طارق فضل چوہدری کی رہائش پر پہنچا تو بظاہر سب کچھ نارمل لگ رہا تھا اور باہر  صحافیوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ تاہم کچھ دیر بعد واضح ہو گیا کہ سب اچھا نہیں ہے۔
اجلاس کے دوران وقفے وقفے سے نماز  یا کسی دوسری ضرورت کے لیے باہر آنے والے والوں کی بدن بولی کوئی مثبت پیغام نہیں دے رہی تھی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی باہر آئے تو صحافیوں نے ان سے کچھ پوچھنا چاہا مگر انہوں نے کچھ بھی بولنے سے انکار کر دیا۔عام طور پر مسکراتے نظر آنے والے رہنما آج بہت سنجیدہ نظر آ رہے تھے ۔
کچھ دیر بعد جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل مولانا غٖفور حیدری باہر آئے تو صحافیوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے سوالات شروع کردیے تاہم وہ چپ چاپ گاڑی کی طرف بڑھتے رہے۔ تاہم گاڑی میں بیٹھ کر انہوں نے مختصربات کرکے اختلافات کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی۔

مریم نواز نے کہا کہ کیا آصف زرداری نواز شریف کی پاکستان واپسی پر زندگی کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ (فوٹو: ٹوئٹر)

ان سے پوچھا گیا کہ کیا اجلاس میں بہت تلخ باتیں ہوئی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتحاد میں دس جماعتیں ہیں مل کر فیصلہ کریں گی یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمرزمان قائرہ باہر آئے تو تیز تیز چلتے ہوئے صحافیوں سے دور جانا شروع ہو گئے تاہم دور سے اتنا کہا کہ سب اچھا ہے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ تاہم اس وقت تک سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ آج سب اچھا نہیں ہے۔
وہاں موجود سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم اتحاد سے باہر جاتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان اسی جماعت کو ہو گا کیونکہ اس سے یہ تاثر جائے گا کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی جماعت بن گئی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی مقبولیت متاثر ہو سکتی ہے۔
اسی دوران خبر آئی کے اجلاس ختم ہو گیا ہے اور جلد رہنما پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ تاہم پریس کانفرنس میں جب مولانا فضل الرحمن، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی نمودار ہوئے تو سب کے چہروں پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔
اپنی گفتگو پر مہارت کے لیے مشہور مولانا فضل الرحمن صرف چند جملے کہہ کر چل دیے۔ مریم نواز کی طرف سے انہیں درخواست بھی کی گئی کہ مولانا صحافیوں کے سوالات کے جواب دے دیں مگر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

 مریم نواز سے بار بار پوچھا گیا کہ کیا پی ڈی ایم لانگ مارچ ملتوی کرنے کے بعد ختم ہو گئی ہے تو ان کا ہر بار یہی جواب  تھا پی ڈی ایم یہیں موجود ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

پی ڈی ایم کے سربراہ کا اس اہم پریس کانفرنس کو چھوڑ کر یوں جانا وہاں موجود صحافیوں کے لیے حیرت کا باعث تھا۔
اس کے بعد مسلم لیگ نواز کے سینیئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مریم نواز کو مشورہ دیا کہ وہ بھی پریس کانفرنس ختم کر دیں تاہم سابق وزیراعظم کی صاحبزادی وہیں کھڑی رہیں۔ شاہد خاقان کی جانب سے انہیں دوسری بار بھی کہا گیا مگر پارٹی عہدے میں ان سے جونیئر مریم نواز نے سوالات کے جوابات دینے کا فیصلہ کیا جس پر شاہد خاقان عباسی بھی پریس کانفرنس چھوڑ کر روانہ ہو گئے۔ تاہم مریم نواز نے نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے اپنا موقف میڈیا کے سامنے رکھا  اور کئی سوالوں کے جوابات دیے۔اس دوران جب انہوں نے کہا کہ کسی کو ان کے والد کی واپسی کے مطالبے کا حق نہیں تو ان کا لہجہ خاصا تلخ تھا۔ بظاہر ان کے مخاطب آصف زرداری ہی تھے۔
 مریم نواز سے بار بار پوچھا گیا کہ کیا پی ڈی ایم لانگ مارچ ملتوی کرنے اور اختلافات کے بعد ختم ہو گئی ہے تو ان کا ہر بار یہی جواب ہوتا کہ پی ڈی ایم یہیں موجود ہے۔ تاہم پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی عدم موجودگی اور وہاں موجود رہنماوں کے چہروں کی پریشانی کوئی اور ہی کہانی سنا رہی تھی۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق وزیراعظم سنیٹر یوسف رضا گیلانی نے وضاحت کی کہ ان کی جماعت لانگ مارچ کو استعفوں سے منسلک کرنے کے معاملے کو پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں زیر غور لا کر پی ڈی ایم کو جواب دے گی۔ ان سے پوچھا گیا کہ پیپلز پارٹی کا جواب کب آئے گا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ  جلد۔  تاہم وہاں موجودہر صحافی یہی کہتا دکھائی دیا کہ منگل کا اجلاس پی ڈی ایم کا اختتامی اجلاس بھی ہو سکتا ہے۔

شیئر: