کپتان عمران خان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کرکٹ ٹیم میں اپنی مرضی کے کھلاڑیوں کی شمولیت کے لیے کرکٹ بورڈ سے لڑ جاتے تھے اور اس وقت تک ٹیم کی تشکیل پر متفق نہیں ہوتے تھے جب تک ان کی پسند کے کھلاڑی شامل اور ناپسندیدہ نکال نہ دیے جائیں۔
جب عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت بنائی تو شروع میں ان کی پارٹی میں دانشور، صحافی، سماجی کارکن اور معاشرے کے دیگر طبقوں کی نمائندگی موجود تھی۔
لیکن رفتہ رفتہ وزیراعظم عمران خان کی اپنے ساتھیوں سے دوریاں بڑھتی گئیں اور آج ان کی حکمران پارٹی میں ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے، جو پہلے روز سے ان کے ساتھ تھے۔
مزید پڑھیں
-
بشری بی بی کی بیٹی بھی تحریک انصاف میں شاملNode ID: 293546
-
عمران کے بیٹے حلف برداری میں کیوں نہیں آئے؟Node ID: 299286
-
وزیر اعظم کے دوست کی بطور معاون خصوصی اہلیت چیلنجNode ID: 319371
وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد اپنی ٹیم میں بھی کئی تبدیلیاں کر چکے ہیں، جن کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ جو کاکردگی نہیں دکھائے گا اس کی ان کی ٹیم میں کوئی جگہ نہیں۔
اب چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے ساتھ یہ ہوتا نظر آ رہا ہے جن کو وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے اس عہدے کے لیے منتخب کیا اور اب خود ہی ان سے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
عمران خان کے بہت قریب رہنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ عمران خان ذاتی دوستوں کو کبھی بھی خود سے دور نہیں کرتے اور ان کی تنقید بھی برداشت کرتے ہیں لیکن سیاست اور پارٹی میں وہ وہی کرتے ہیں جو ان کے ہم عصر سیاستدان کرتے ہیں۔
’میں عمران خان کے بہت سے ایسے قریبی دوستوں کو جانتا ہوں جو کئی سال سے ان کے ساتھ ہیں۔ وہ ان پر بہت تنقید بھی کرتے ہیں لیکن عمران خان اس کو سنتے ہیں۔ جب کہ وہ پارٹی کے اندر خود پر تنقید برداشت نہیں کرتے۔‘
’سیاست میں عمران خان وہی کر رہے ہیں جیسا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کر رہے ہیں۔ وہ ان سے مختلف نہیں ہیں۔‘

حامد میر کے مطابق ’2013 اور 2018 کے انتخابات میں جہانگیر ترین بہت زیادہ ایکٹو تھے لیکن اب وہ نہیں ہیں۔ اسی طرح پہلے عمران خان ملک ریاض کے خلاف تھے، اب ان کے قریب ہو گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو حال ہی میں انہوں نے خود مقرر کیا تھا اور اب ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف تھے، اب نہیں ہیں۔‘
حامد میر کے مطابق ’سیاست اور ذاتی زندگی کا عمران خان دوستوں کے حوالے سے مختلف ہے۔‘
یوں تو عمران خان کی 25 سالہ سیاسی جدوجہد میں ان کے ساتھ کئی لوگ آئے اور ان کے ہمرکاب رہنے کے کچھ ہی عرصے بعد انہیں چھوڑ گئے۔
ان میں بہت سے نمایاں لوگ بھی شامل ہیں جیسے کہ جسٹس وجہیہ الدین، جاوید ہاشمی، حامد خان، اکبر ایس بابر، نسیم زہرہ، انعام اللہ نیازی، فوزیہ قصوری، ایاز صادق، آئی بی کے سابق سربراہ مسعود شریف خٹک اور سابق سیکریٹری داخلہ تسنیم نورانی کے علاوہ جہانگیر ترین بھی اب ان سے دور ہو چکے ہیں اور حالیہ کسی بحران میں وہ نظر نہیں آئے۔
حامد میر کا خیال ہے کہ عمران خان سیاست میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو دوسری جماعتوں کے قائدین کرتے ہیں اور سیاسی ضرورت کے تحت ساتھی بدل لیتے ہیں لیکن ان کی یہ عادت اس لیے زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ انہوں نے بہت زیادہ اخلاقی معیار مقرر کیے ہوئے ہیں اور ہمیشہ اس کی بات کرتے ہیں۔
’وہ جب اعلیٰ اخلاقی معیار کی بات کرتے ہیں تو پھر لوگ ان کی سیاست کو دیکھتے ہیں اور اس بات کو (دوسری جماعتوں کے برعکس) زیادہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ سیاست کی ضروریات کے لیے ساتھی بدل لیتے ہیں۔‘
کارکردگی کا دباؤ
عمران خان کے دیرینہ ساتھی اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان جاوید میانداد کا کہنا ہے کہ ’عمران خان کی پوزیشن کی وجہ سے، ان پر لوگوں کا دباؤ آتا ہے، جس کے بعد انہیں کارکردگی دکھانے کے لیے اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کرنا پڑتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسی دباؤ کی وجہ سے عمران خان بعض اوقات غلط فہمی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں اور بعض باتوں کو دل پر بھی لے لیتے ہیں۔‘
