Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں لفظی جنگ رکوانے کے لیے ’کوششوں کا آغاز‘

مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر کے مطابق ’ن لیگ اور پیپلز پارٹی نہیں چاہیں گی کہ ان کی چپقلش کے باعث حکومت کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔' (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان لفظی جنگ رکوانے کے لیے پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے اہم رہنماؤں نے کوششیں شروع کر دی ہیں اور اُن کو امید ہے کہ دونوں جماعتیں جلد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذاکرات کی میز پر ہوں گی۔
اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ’مریم نواز کی ٹویٹ پر بلاول بھٹو کے جوابی بیان کے بعد مصالحانہ کوششوں میں مزید تیزی آ گئی ہے۔ اتحاد میں شامل اہم رہنماؤں نے دونوں جماعتوں سے رابطے کرکے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی روکنے کی اپیل کی ہے۔‘
اردو نیوز نے اس حوالے سے مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان کوششوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کبھی نہیں چاہیں گی کہ ان کی باہمی سیاسی چپقلش کے باعث حکومت کے لیے آسانیاں پیدا ہوں۔ اس لیے مشترکہ دوست غلط فہمیوں کو دور کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مصالحانہ کردار ادا کرنے والوں کے نام بتانے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پسِ پردہ کوششیں کرنے والوں کے نام سامنے آتے ہیں تو ان پر دباؤ آتا ہے اس لیے فی الحال انہیں اپنا کام کرنے دیں۔‘
پاکستان میں سیاسی اختلافات اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا کلچر اگرچہ بہت پرانا ہے لیکن دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان میثاق جمہوریت کے بعد اس میں کافی حد تک کمی آئی تھی۔
پاکستان کی سیاست میں خوشگوار تبدیلی اس وقت دیکھی گئی تھی جب دونوں جماعتوں کی نئی قیادت بلاول بھٹو ‍‍زرداری اور مریم نواز کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں۔ دونوں سیاسی خاندانوں کے درمیان میل جول اور روابط اس قدر بڑھے کہ گذشتہ برس بے نظیر کی برسی کے موقع پر مریم نواز گڑھی خدا بخش میں بلاول بھٹو کی ذاتی مہمان بنیں۔ پی ڈی ایم اتحاد کے تحت ہونے والے مشترکہ جلسوں میں کارکنوں کی موجودگی میں عہد و پیمان کیے گئے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اب ماضی کی سیاست نہیں کریں گی۔
دونوں جماعتوں نے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے اور سیاسی اختلافات کو ذاتی لڑائیاں نہ بنانے کا فیصلہ کیا اور حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے میدان میں اتر گئیں۔
سینیٹ الیکشن میں اسلام آباد کی نشست پر کامیابی اور چیئرمین سینیٹ کی نشست پر ناکامی کے باوجود دونوں جماعتوں نے باہمی اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کیا۔
16 مارچ کو پی ڈی ایم کا معمول کا سربراہی اجلاس تھا۔ اچانک ذرائع کے حوالے سے الیکٹرانک میڈیا پر سابق صدر ‍‍زرداری کا نواز شریف کی واپسی سے متعلق بیان اور اس کے بعد مریم نواز کا جواب چلنے لگا۔ مولانا فضل الرحمان کی مختصر پریس کانفرنس اور لانگ مارچ ملتوی کرنے کے اعلان نے ان خبروں کی کافی حد تک تصدیق کر دی تھی۔
جس کے بعد مریم نواز کی ایک ٹویٹ اور کچھ بیانات جبکہ پیر کی شام بلاول بھٹو کے بیان نے دونوں جماعتوں کے درمیان کیے گئے قول و قرار کو بھلا دیا اور ماضی کی سیاست کے رویے ایک بار پھر سامنے آنے لگے۔

سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس کے مطابق ’آصف زرداری اس وقت دو محاذوں پر لڑنا چاہتے ہیں۔' (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے گفتگو میں سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے کہا کہ ’دونوں جماعتوں کے تعلقات اتنی جلدی خراب ہو جائیں گے اس کی توقع نہیں تھی۔ اس کی اصل وجہ تو کسی کو معلوم نہیں البتہ لگتا یہ ہے کہ تنازع پرانا ہے۔‘
ان کے خیال میں ’اس کی ایک سیاسی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ ن لیگ کا مستقبل میں کردار صرف اپوزیشن تک محدود ہوگا۔ ایسے میں زرداری کا نواز شریف کو اس انداز میں مخاطب کرنا پنجاب کے سیاسی خاندانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے سیاسی زبانی تلخی جان بوجھ کر پیدا کی ہے جس کا مقصد پیپلز پارٹی کو پنجاب کی سیاست میں انٹری دلوانا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آصف زرداری اس وقت دو محاذوں پر لڑنا چاہتے ہیں۔ ایک تو وہ حکومتی پالیسیوں اور تحریک انصاف کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ن لیگ کے خلاف ریاستی کارروائیوں کی وجہ سے پنجاب میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔‘
تجزیہ کار اور صحافی مظہر عباس دونوں جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والی تلخی کو ایک اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق ’آصف علی زرداری کی بات کا بنیادی مقصد ن لیگ اور جے یو آئی کو پیغام دینا تھا کہ پی ڈی ایم کے فیصلے پیپلز پارٹی سے بالا بالا نہیں ہوں گے بلکہ تمام فیصلے مل کر اور مشترکہ ہوں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’آصف زرداری کی زبان ذرا سخت ہو گئی جس کی وجہ سے صورت حال خراب ہوئی ہے۔ اس کا ثر دونوں جماعتوں کے کارکنوں پر بھی ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کا استعفوں سے متعلق واضح موقف ہے اور ن لیگ سمیت باقی جماعتیں اس موقف کو ایک حد تک تسلیم بھی کر چکی ہیں۔ موجودہ تنازع چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس کا بھی جلد حل نکل آئے گا۔‘

شیئر: